اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب پولیس کے 50 افسران کی جانب سے دائر کی گئیں 24 آئینی درخواستوں کو مسترد کردیا، جس میں عدالت کی جانب سے 2013 کے آؤٹ آف ٹرن یا غیر قانونی ترقیوں پر دیئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ رواں سال 14 دسمبر کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 روکنی بینچ نے فیصلہ محفوط کیا تھا، تاہم فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جن افسران کی تقرری اعلیٰ عدالتوں یا سروس ٹربیونل کے ذریعے کی گئی ہے وہ اپنے موجودہ عہدوں پر کام جاری رکھے گے۔

وہ افسران جنھیں غیر قانونی طور پر ترقی نہیں دی گئی تھی انھوں نے عدالتوں اور سروس ٹریبونل سے سپریم کورٹ کے مذکورہ حکم کی روشنی میں رابطہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس، ہوم سیکریٹری اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو حکم دیا کہ 'جنھیں غیر قانونی ترقی دی گئی تھی اب فیصلے کی روشنی میں ان تمام پولیس افسران کی سنیارٹی کو طے کیا جائے اور ان کے بیچ میٹس (برابر کا عہدہ رکھنے والے) کی بھی سنیارٹی کو طے کیا جائے اگر انھیں غیر قانونی ترقی نہیں دی گئی'۔

خیال رہے کہ 2013 میں سپریم کورٹ نے غیر قانونی ترقیوں کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ انعام اور دیگر حوالوں سے پولیس افسران یا سول ملازمین کو اس طرح کی ترقیاں نہیں دی جاسکتیں۔

تاہم گذشتہ روز سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ قانون 'تیز رفتار' ترقیوں کی اجازت نہیں دیتا اور قانون کے مطابق اس حوالے سے شاید صدر کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 2013 کے حکم کے باعث سیکڑوں پولیس افسران، جن میں 20 سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) بھی شامل تھے، کے عہدوں میں تنزلی کردی گئی تھی۔

تاہم حال ہی میں سپریم کورٹ میں درخواستیں جمع کرانے والے پولیس افسران نے زور دیا تھا کہ انھیں پولیس قوانین کی دفعہ 8 اے کے تحت ترقی دی گئی ہے اور وہ سپریم کورٹ کے حکم کی زد میں نہیں آتے۔

ان کا مؤقف تھا کہ صوبائی حکومت نے انھیں متعلقہ قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ترقی دی تھی تاہم اس لیے درخواست گزاروں کے حقوق کے حوالے سے ماضی کی وجہ سے تعصب نہیں برتا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقیاں متعلقہ قوانین اور قواعد و ضوابط کے تحت سخت معیار کی بنیاد پر دی جاتی ہیں اور صوبائی سلیکشن بورڈ درخواست گزاروں کی کارکردگی اور قابلیت کی دوہری جانچ کرتا ہے۔

انھوں نے زور دیا کہ ان کو دی جانے والی ترقیاں آئین کے خلاف نہیں اور یہ بھی کہ حکومت کو حق حاصل ہے کہ افسران کی کارکردگی، سالمیت اور قابلیت کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی کرے۔

پنجاب پولیس نے سپریم کورٹ کو رواں سال جولائی میں بتایا تھا کہ ادارے نے 10884 افسران کو دی جانے والی غیر قانونی ترقیاں واپس لے لی ہیں۔

اس سے قبل رواں سال 26 جولائی کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے عدالت کی جانب سے 2013 میں دیئے گئے فیصلے پر عمل درآمد نہ کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور آئی جی، ہوم سیکریٹری اور چیف سیکریٹری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے آغاز کیلئے خبردار کیا تھا۔

پنجاب پولیس کی رپورٹ کے مطابق 66 ڈی ایس پیز کو دی گئی غیر قانونی ترقیاں واپس لے لی گئیں ہیں، انھیں ٹرانسفر کردیا گیا ہے یا انھیں ہٹا دیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ 31 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں