سیاسی رپورٹنگ میرے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ ایک تو سیاستدانوں کا گھنٹوں انتظار کیا جائے اور پھر گھنٹوں غیر ضروری خطابات سنے جائیں، تب جا کر قابلِ خبر سیاسی رہنما کے خطاب یا بیان کی باری آتی ہے جس کے لیے ہم اپنے قلم کیمرے چاق و چوبند رکھتے ہیں۔

اسی وجہ سے میں سیاسی جلسے یا کسی بھی سیاسی میٹنگ کی کوریج سے گریز ہی کرتا ہوں کہ وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل نہیں، ویسے بھی انہوں نے کہا، انہوں نے مزید کہا کے درمیان سیاستدان کے پرانے بیانات میں سے نئی چیز تلاش کر کے خبر بنانی پڑتی ہے۔

عمران خان نے گزشتہ ماہ کراچی کا دورہ کیا۔ اس دوران ملک کے سب سے بڑے کینسر ہسپتال شوکت خانم کینسر ہسپتال کراچی کا افتتاح کرنے کے علاوہ بڑے پیمانے پر سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ ہمارے ایک ساتھی، جنہیں تحریک انصاف کی کوریج کرنی تھی وہ ذاتی مصروفیات کی بنا پر چھٹی پر تھے سو عمران خان کی مصروفیات کی کوریج اس بندہ ناچیز کو کرنی پڑی۔

پڑھیے: وڈیروں کا کندھا مت تلاش کریں

خان صاحب کے دورہ کراچی کے دوسرے روز، ایک مقامی ہوٹل میں انصاف پروفیشنل فورم اور پھر ضلع شرقی کے ورکرز کنونشن میں شریک ہونا تھا۔ دونوں پروگرامز کی کوریج کر کے جیسے ہی دفتر پہنچا تو اسائنمنٹ ایڈیٹر نے پوچھا، "جی راجہ صاحب کیا خبر ہے؟ جلدی سے پیکج بنا دیں اور ہر ایونٹ کا ایک شاٹ پیکج میں شامل کردیں۔"

میں نے کہا کہ اسائنمنٹ ایڈیٹر صاحب آج تو عمران خان نے بہت اہم بات کہہ دی ہے۔ اب سمجھ نہیں آ رہا کہ اس کو کیا سمجھوں اور کیا لکھوں؟ میری اس بات پر اسائنمنٹ ایڈیٹر صاحب متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ "کون سی نئی بات کہہ دی ہے؟"

میں نے بتانا شروع کیا کہ خان صاحب نے پہلے تو پروفیشنل فورم کے افراد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ: "پاکستان کے پاس ایک ایسی طاقت اپنے انسانی وسائل کی صورت میں موجود ہے جس کے بل پر وہ کوئی بھی ادارہ قائم کرسکتا ہے۔ پڑھے لکھے افراد کی بات زیادہ مدلل ہوتی ہے اور اس کو زیادہ سنا بھی جاتا ہے۔ انقلاب کسی بھی طریقے سے آ سکتا ہے مگر وہ پرامن اور تشدد سے پاک انقلاب کی کوشش کر رہے ہیں۔’’

پڑھیے: تبدیلی' کی بریانی، 'نیا' پاکستان؟'

اس بات پر سینئر اسائنمنٹ ایڈیٹر شاملِ گفتگو ہوئے اور انکشاف کیا کہ "وہ پہلے بھی یہی بات کہہ چکے ہیں۔ سینئر اینکر طلعت حسین جب ڈان ٹی وی پر تھے تو انہی کے پروگرام میں خان صاحب نے یہ بات کہی تھی۔ اس پروگرام میں تو خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو، ایم ایم اے اور ایم کیو ایم نے بیلٹ کے ذریعے انقلاب لا کر دکھایا ہے۔"

یہ سن کر تو ہمارے بلدیاتی رپورٹر پھڑک اٹھے اور کہنے لگے "واہ جی واہ کیا عمران خان نے ایم کیو ایم کی تعریف کر دی! اس پر پھر سینئر اسائنمنٹ ایڈیر نے کہا "بھائی خان صاحب تو کئی مربتہ ایم کیو ایم کی تعریف کر چکے ہیں۔ بہرحال راجہ صاحب آپ بتائیں نئی بات کیا کہی ہے۔ خبر میں نئی چیز ہونی چاہیے بار بار دہرائے بیان نہیں۔"

اسائنمنٹ ایڈیٹر صاحب، عمران خان نے اپنی اصل بات تو یہ کی ہے کہ ’’میرا گلہ پڑھے لکھے لوگوں سے ہے جنہیں سیاست کی ضرورت نہیں، انہیں سیاست میں آگے آنا چاہیے، باصلاحیت لوگوں کو آگے آنا ہوگا۔ خود تو آگے آتے نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ دو نمبر آدمی کو لے لیا ہے۔" (یہ باتیں سن کر سینئر اور جونیئر اسائنمنٹ ایڈیٹر کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے۔)

میں نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خان صاحب کا کہنا ہے کہ "باصلاحیت لوگ آگے نہیں آئیں گے تو پھر شکایت نہ کریں کہ ٹکٹ کس کو دے دیا ہے۔ سفید لوگ نہ ملے تو گرے شیڈ (سرمئی رنگ) میں جائیں گے مگر کالے لوگوں کو شامل نہیں کریں گے۔ پروفیشنل افراد یا تو خود پارٹی میں حصہ لیں یا پھر شکایت نہ کریں۔ اسد عمر کی طرح پروفیشنل لوگ قربانی دیں اور عملی سیاست میں حصہ لیں۔"

کیمرہ مین بھائی نے بھی بیچ میں چھلانگ لگا دی "ویسے تعلیم یافتہ افراد سے عمران خان کا شکوہ ٹھیک ہی تو ہے۔" اب ہم سب ان کی طرف متوجہ ہوئے۔

پڑھیے: پی ٹی آئی کے حامی کا عمران خان کو مشورہ

کیمرا مین صاحب بولے "بھائی تحریک انصاف میں ایسے لوگ شامل ہیں جن کے ڈرائیور نہ ہوں تو وہ ڈسٹرکٹ سینٹرل سے باہر نہیں نکلتے۔ ایسا تو این اے 246 کی انتخابی مہم میں بھی دیکھا جب عمران اسماعیل اپنی انتخابی مہم چلا رہے تھے تو ان کے کارکنان ڈیفنس کلفٹن اور دیگر پوش علاقوں سے آتے تھے۔ ارے بھائی آپ کو وہ اسلام آباد کا کارکن یاد نہیں جو کہتا تھا کہ پولیس مارے گی تو انقلاب کیسے لائیں گے۔"

"بھائی یہی تو کمال ہے عمران خان کا کہ وہ ان لوگوں کو سیاست میں لائے ہیں جنہوں نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا تھا۔" سینئر اسائنمنٹ ایڈیٹر صاحب گویا ہوئے۔

یاد نہیں ہے کس طرح ڈیفنس کی نشست پر عارف علوی کامیاب ہوئے۔ اگر عمران خان کے پیچھے چلنے والے پولنگ کے دن گھیراؤ نہ کرتے اور تین تلوار پر دھرنا نہ ہوتا تو پی ٹی آئی کے ہاتھ سے کراچی میں یہ نشست بھی قریب جا چکی تھی۔ بس اس تحریک میں زہرہ شاہد کو جان گنوانا پڑی۔

اب کرائم رپوٹر صاحب بھی شامل گفتگو ہوگئے، ان کا کہنا تھا کہ زہرہ شاہد کے قتل کے بعد تو تحریک انصاف کیس کی پیروی سے فرار ہو گئی۔ پھر خان صاحب نے دھاندلی دھاندلی کا بہت شور مچایا کر لاحاصل دھرنا دیا۔ پڑھی لکھی عوام کی ساری توانائی وہیں خرچ کروا دی ہے، اب کون سی قربانی اور سیاست میں شامل ہونے کی بات کر رہے ہیں۔

کورٹ رپورٹر صاحب کے شامل ہونے کی کسر باقی رہ گئی تھی وہ بھی پوری ہوگئی۔ کہنے لگے، "بھائی خان صاحب نے کس پڑھے لکھے فرد کو ساتھ چلایا ہے۔ خان صاحب نے اپنے ہاتھوں سے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین اور تسلیم نورانی اور نہ جانے کس کس پروفیشنل کو مایوس کیا ہے۔ پارٹی میں تو ووٹ کی طاقت پر کامیاب ہونے والوں کو تو جگہ فراہم نہیں کی ہے۔"

پڑھیے: عمران خان کی پانچ غلطیاں

اسائنمنٹ ایڈیٹر صاحب نے اپنا تجزیہ دیا کہ "بھائی لگتا ہے نہ تو عدالت سے نواز شریف کی جان جلد چھٹ سکتی ہے اور نہ پاناما کا کوئی فیصلہ جلد متوقع ہے، لہٰذا اب خان صاحب آئندہ عام انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں اور اپنے ووٹر کا ذہن بنا رہے ہیں۔ پڑھے لکھے افراد یا تو خود آگے آئیں یا پھر سوال اور نہ ہی تنقید کریں۔"

یہ گرما گرم گفتگو جاری تھی۔ ساتھ کے آفس سے اخبار کا نمائندہ آیا، اس کا کہنا تھا کہ بھائیوں سادہ سی بات ہے۔ خان صاحب اس سال ایسے لوگوں کو شامل کر کے لڑیں گے جو کہ کئی دوسری سیاسی جماعتوں کا حصہ تھے۔ اب لگتا ہے کارکنان کو ووٹ نہیں ملیں گے بلکہ ایسے لوگوں کو ووٹ دیا جائے گا کہ جو کہ پارٹی کا کبھی حصہ نہیں رہے۔

کورٹ رپورٹر نے تاریخ کا جائزہ بھی شروع کر دیا، عمران خان نے جب سال 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک میں حصہ لیا تو ان کی شہرت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ 12 مئی 2007 کے بعد سے ایم کیو ایم کے خلاف سیاسی بیان بازی اور برطانیہ میں مقدمات قائم کرنے کے اعلان نے کراچی شہر کی سول سوسائٹی کو متاثر کیا اور بڑے پیمانے پر کراچی کی سول سوسائٹی عمران خان کے قریب آئی۔

میں نے کہا کہ بھائی یہ مڈل کلاس کا سیاست میں آنا ایک مشکل کام ہے، سیاست کا خرچہ کون اٹھائے گا۔ دوست محمد فیضی کراچی کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم نام ہیں, طلبہ سیاست سے قومی سیاست میں آنے والے دوست محمد فیضی صوبائی وزیر بھی رہے۔ ایک محفل میں اس بات پر مباحثہ تھا کہ متوسط طبقہ سیاسی میدان میں کیوں نہیں آتا۔

اس کا دوست محمد فیضی نے خوبصورت جواب دیا کہ، "پہلے ہم سیاست کیا کرتے تھے، تاجر اور صنعت کار ہمارے حامی ہوتے تھے وہ جلسے جلسوں اور انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مالی امداد فراہم کیا کرتے تھے۔ اس وقت سیاست خدمت کے لیے کی جاتی تھی نہ کہ پیسہ بنانے کے لیے۔

"ماضی میں کسی بھی سیاسی کارکن کے ساتھ ساتھ حامیوں کا بھی اہم کردار ہوتا تھا۔ مگر اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے، صنعت کار اور تاجر خود سیاست دان بن گیا ہے۔ یا پھر جائز دولت سمیٹے ہوئے لوگ اپنی دولت بچانے کے لیے سیاست کا رخ کر رہے ہیں۔ اس پیسے کے کھیل میں ایک متوسط طبقے کے سیاست دان کی گنجائش کم ہی رہ جاتی ہے۔"

پڑھیے: عمران خان کے نام کھلا خط

چند سال قبل گورنر اسٹیٹ بینک سلیم رضا سے غیر رسمی بات چیت ہوئی۔ اس میں سیاست اور معیشت کے مختلف پہلوؤں زیر بحث رہے، اس میں ججز بحالی تحریک پر کھل کر بات ہوئی۔

انہوں نے ایک نہایت اہم اور پتے کی بات کہی تھی۔ امن و امان اور قانون کی حکمرانی نہ تو انتہائی امیر شخص کا مسئلہ ہے اور نہ ہی غریب آدمی کا، یہ مسئلہ ہے تو پڑھے لکھے تعلیم یافتہ مڈل کلاس کا، اس لیے ججز بحالی تحریک بھی پنجاب اور صوبہ سندھ کے ان علاقوں میں زیادہ قوت سے چلی جہاں متوسط یا بالائی متوسط طبقے کی آبادی زیادہ موجود ہے۔

اب دوبارہ بلدیاتی رپورٹر کی بات تھی کہ "بھائی ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے پاس سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ایم کیو ایم میں پڑھے لکھے لوگ کیسے شامل ہیں؟ اس پر تو ایک الگ اور طویل بات ہوسکتی ہے، مگر جماعت اسلامی میں تو تقریباً ہر کارکن پڑھا لکھا ہے۔ مگر یہ جماعت ایک عوامی جماعت کا روپ نہیں لے سکی، کیونکہ اس جماعت کا پڑھا لکھا ورکر عام افراد میں گھلتا ملتا ہی نہیں ہے تو وہ ووٹ کیسے مانگے گا۔"

بحث لمبی ہونے کا خدشہ تھا لہٰذا اسائنمنٹ ایڈیٹر صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے کہا بھائی بات الجھاؤ نہیں سیدھا سا چار لائن کا پیکج بنا دو، پاناما کو اوپر رکھنا، اور نیچے جو دل چاہے وہی رکھ دینا۔

تبصرے (1) بند ہیں

RIZ Jan 11, 2017 09:31am
acha likha hai raja sahib,,,