چند روز قبل میری ایک شادی شدہ قریبی دوست ٭نرمین سسرال چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر لوٹ آئی تھی۔ اس کی والدہ نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں آ کر نرمین سے ملوں۔ وہ خاصی پریشان تھیں اور بتا رہی تھیں کہ نرمین کی ذہنی حالت کچھ درست نہیں لگ رہی۔

پہلی فرصت میں جب اپنی دوست کے گھر پہنچی تو اس کی والدہ نے بتایا کہ "نرمین اب اپنے سسرال واپس نہیں جانا چاہتی۔ جس دن وہ واپس آئی اس کا وزن انتہائی کم تھا، وہ بہت کمزور تھی اور عجیب سی باتیں کر رہی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسے ڈپریشن ہے اور وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ نہ جانے اسے کیا ہوا ہے؟ اور واپس بھی نہیں جانا چاہتی، اس کے سسرال والوں نے تو اسے کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔"

میری دوست کی طبیعت اس قدر خراب تھی کہ میرے کسی سوال کا جواب دینے کی حالت میں بھی نہیں تھی۔ کمزوری اور نقاہت سے اس کا برا حال تھا۔ اس سے مل کر میں واپس اپنے گھر لوٹ آئی۔ کچھ روز بعد جب میری دوست قدرے بہتر ہوئی تو میں نے اس سے اس کی پریشانی کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بتایا کہ اس کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو مشترکہ خاندان (joint family) کے ساتھ رہتا تھا۔

اس کے شوہر سمیت تمام سسرال والوں کا رویہ ایسا تھا جس میں اس کے جذبات اور محسوسات کی ہر وقت تضحیک کی جاتی تھی۔ یہ بات وہ اپنی والدہ کو بھی نہیں سمجھا سکی کیونکہ مار پیٹ کے زخم تو دکھائے جا سکتے ہیں مگر یہ بات سمجھانے کے لیے اس کے پاس کوئی ثبوت یا نشانی نہیں تھی۔ اگر اس نے کبھی بات کی بھی تو والدہ نے اس کو ذود رنج اور حساس قرار دے دیا۔

میری یہ دوست اپنی شادی شدہ زندگی میں دراصل جذباتی تشدد یا (emotional abuse) کا شکار تھی۔ یہ ایک ایسا خاموش رویہ ہے جو دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے اورشادی شدہ زندگی میں ہمارے معاشرے میں اس ذہنی تشدد کے عمل میں ایک شخص یا بعض اوقات پورا خاندان شامل ہوتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ جذباتی تشدد کا شکار ہونے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے مگر بعض صورتوں میں عورتیں بھی شوہروں کو ذہنی تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔

اس قسم کا تشدد کرنے والے افراد اپنے تشدد کا شکار بنانے والے شخص کی تضحیک کرتے ہیں، نیچا دکھاتے ہیں اور دوسروں کے سامنے مذاق اڑاتے ہیں۔ اگر ایک شوہر بیوی کو جذباتی طور پر زدوکوب کر رہا ہے تو وہ اس کے سارے نظریات، احساسات، تجاویز اور خواہشات کی نفی کرے گا۔ اس کے خاندان اور ذات برادری کو تضحیک کا نشانہ بنائے گا۔

ذہنی تشدد کا شکار بنانے والے لوگ اپنے شکار کی کامیابیوں اورخوبیوں پر انہیں نیچا دکھاتے ہیں۔ انہیں مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں اور ہر معاملے میں ناقص العقل قرار دے کر ان کے فیصلوں کی طنابیں اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔

میری دوست آن لائن کام کر کے خود پیسے کماتی تھی مگر اسے یہ پیسے اپنی مرضی سے خرچ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کی ذات اور خاندان سے متعلق بہت سی ذاتی باتیں لوگوں اور دوستوں سے کی جاتیں اور ان کا مذاق اڑایا جاتا۔

میری دوست نرمین کے بقول کسی بھی جذباتی تشدد کے شکار شخص کی طرح اسے اس تشدد کی شدت کا اندازہ بہت دیر سے ہوا کیونکہ اس کے سسرالی رشتہ دار ہر معاملے میں خود کو درست، بالاتر اور کسی بھی غلطی سے مبرا قرار دیتے تھے۔ وہ اسے ایسی نگاہوں سے دیکھتے تھے جیسے اس سے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہو اور میری دوست ہر وقت خود احتسابی کے عمل میں مصروف رہتی تھی۔ اسے یہ ادراک بہت دیر سے ہوا کہ اس کے ساتھ دراصل کوئی زیادتی کر رہا ہے اور دیگر لوگوں کی ازدواجی زندگیوں میں ایسا نہیں ہوتا۔

اگر وہ کبھی اپنے شوہر کو اپنی سوچ اور کیفیت بتانا چاہتی تو ایسا کرنا بھی اسے ناممکن لگتا کیونکہ وہ اس سے جذباتی طور پر ایک فاصلہ رکھتا تھا اور کسی قسم کی ہمدردی نہیں رکھتا تھا۔ بعض دفعہ وہ بغیر کوئی وجہ بیان کیے اس سے بات چیت بند کر دیتا تھا۔ چونکہ وہ اپنی کیفیت کا تجزیہ کرنے اور اسے کسی سے شیئر کرنے کے قابل نہ تھی، اس لیے وہ عدم تحفظ کا شکار بھی تھی۔ اپنی ذات کا دفاع کرنا یا ان جذباتی حملوں کی تردید کرنا اس ذہنی حالت میں اس کے بس میں نہیں رہا تھا۔

مسلسل ذہنی دباؤ کی وجہ سے میری دوست کی نیند اور بھوک پیاس بھی شدید متاثر ہوئی اور بالآخر جب وہ نقاہت سے چکرا کر گر پڑی تو اس نے اپنی والدہ سے رجوع کیا جو اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئیں۔

ہمارے معاشرے میں نرمین کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ جذباتی تشدد کا شکار ہیں۔ یہ رویہ شادی شدہ زندگی میں خاص طور پر دکھائی دیتا ہے۔ سب سے پہلے تو لوگوں میں اس اہم پہلو کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جذباتی تشدد بھی زیادتی کے زمرے میں آتا ہے اور یہ نادیدہ تکلیف ایک حد سے زیادہ برداشت کرتے رہنا بھی درست نہیں۔ اس بارے میں شکایت کرنے والے لوگوں کے رشتہ داروں کو بھی اس بات کو غور سے سننا چاہیے اور اس جذباتی زیادتی اور تشدد کی شکایت کو مار پیٹ کی شکایت جتنی ہی اہمیت دینی چاہیے۔

اس ضمن میں سب سے پہلے تو اس تشدد کا شکار بنانے والے شخص سے بات چیت کر کے کوئی اصلاح کی صورت نکالنی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو شدید جذباتی زیادتی کرنے والے شخص سے کنارہ کشی بہتر ہے۔

اس صورتحال سے نکل آنے والے شخص کے لیے میری دوست نرمین کی طرح کسی نفسیاتی معالج سے رابطہ بہت ضروری ہے۔ اس تشدد سے متاثرہ شخص کے لیے بھی یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس زیادتی کو خاموشی سے سہے جانا اور برداشت کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔ اس صورت میں فوراً کسی با شعور رشتہ دار اور نفسیاتی معالج یا کونسلر سے ملنا چاہیے۔


*نام شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دیا گیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

رمضان رفیق Feb 15, 2017 01:21pm
ایک عورت خود کماتی ہے اور اس کو خرچ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے؟، میری ذاتی مشاہدے میں تو جو عورتیں خود کماتی ہیں وہ اپنے علاوہ کسی اور کا اس پر حق تسلیم ہی نہیں کرتیں اس لئے جھگڑوں کا آغاز ہوتا ہے، بہرحال اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ ذہنی پریشانی بھی ایک تشدد ہی ہے۔ خواہ وہ تشدد ظالم مرد کرے یا بے چاری عورت۔۔۔۔