اسلام آباد: سماجی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے معاملے پر پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) نے نوٹس لیا گیا ہے جس کے بعد یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ ایجنسیوں کو قانون کے دائرے میں لانے کیلئے قانون سازی کی جائے۔

عوامی اہمیت کے معاملے پر بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ تیز رفتار اور سستے انصاف کیلئے پورے سینیٹ کی کمیٹی نے حال ہی میں حکومت کو کچھ تجاویز پیش کی ہیں، جن میں سے ایک لاپتہ افراد کے حوالے سے ہے اور ایجنسیوں کو قانون کے دائر کار میں لانے کیلئے قانون سازی کا ڈرافٹ بھی بھیج دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ اگر حکومت مذکورہ قانونی ڈرافٹ کا جواب نہیں دے گی تو پارلیمانی لیڈر اس پر دستخط کریں گے اور اسے پرائیویٹ ممبر بل کی حیثیت سے ایوان سے منظور کرایا جائے گا۔

سینیٹ چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 60 روز گزر جانے کے بعد مذکورہ تیز رفتار اور سستے انصاف کی رپورٹ کی تجاویز پر عمل درآمد کے لیے خط لکھ دیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''سینیٹ کی جانب سے اسلام آباد سے سماجی رضاکاروں کی پُر اسرار گمشدگیوں کے معاملے پر نوٹس اور وزیر داخلہ کی یقین دہانی کہ گمشدگیاں پارلیمنٹ کیلئے ایک خدشے کا پیغام نہیں ہیں، وزیر داخلہ اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے باوجود شہریوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے، اور اسے مقامی زبان میں کہتے ہیں کہ 'ہور چوپو'۔''

ملک اور خاص طور پر اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کے معاملے کو سختی سے اٹھاتے ہوئے پی پی پی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ سماجی رضاکاروں کے لاپتہ کیے جانے اور سینیٹ میں بحث کے بعد ان کی ایک گھنٹے میں رہائی ایک پیغام دے رہی ہے جیسے ایوان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ صورت حال آئے روز خراب ہوتی جارہی ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے 28 افراد کو لاپتہ کرنے والوں کی نشاندہی کے باوجود ان کے خلاف کچھ نہیں ہوا، لاپتہ افراد مالاکنڈ میں زیر حراست ہیں۔

'اس کے علاوہ بلوچستان سے کئی لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں بھی ملی ہیں، ان کے عزیزوں کی جانب سے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا گیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انھیں ریاست اور معاشرے پر بد اعتمادی ہے کہ وہ کچھ نہیں کریں گے'۔

پی پی پی کے سینیٹر نے افسوس کا اظہار کیا کہ جبری گمشدگیوں کے کسی ایک بھی ذمہ دار کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔

ان کا کہنا تھاکہ 'یہ پارلیمنٹ کو جنجھوڑنے اور قوم سے خطاب کرنے کا وقت ہے، اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے'۔

وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن کی جانب سے ایوان کو حال ہی میں پُراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے معاملے پر کی جانے والی تحقیقات کی تفصیلات فراہم کرنا تھیں تاہم وہ ایسا نہ کرسکے۔

وزیر قانون زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ وزیر مملک برائے داخلہ پہلے سے طے شدہ مصروفیات کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے ہیں اور وہ ان کی جگہ موجود ہیں۔

انھوں نے ایوان کو بتایا کہ حال ہی میں لاپتہ ہونے والے افراد کے حوالے سے پولیس کو رپورٹ نہیں کرائی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ نے جبری گمشدگیوں کا نوٹس لیا ہے اور اس حوالے سے پولیس کو تفصیلات جمع کرانے کا کہا ہے۔

سینیٹ چیئرمین میاں رضا ربانی نے نشاندہی کی کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ متاثرہ افراد کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔

جس پر وزیر نے بتایا کہ گذشتہ 12 روز میں لاپتہ ہونے والے 5 افراد کی جبری گمشدگی کے حوالے سے ایوان کو پیر کے روز پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔

چیئرمین نے کہا کہ 'پارلیمنٹ ان حکومتی اداروں اور ذاتی گروپوں کی جانب سے دھمکیوں پر بہری ہے'۔

ادھر وقفہ سوالات کے دوران سینیٹ کو بتایا گیا کہ غیر ملکی امداد سے کام کرنے والی 15 مقامی این جی اوز کا کیس خزانہ اور معاشی امور کی وزارت کے پاس ہے۔

وزیر قانون نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ایوان کو بتایا کہ غیر ملکی امداد سے چلنے والی مقامی این جی اوز کے معاملے پر دستاویزات دیگر 'سٹیک ہولڈرز' کو بھیجی جاچکی ہیں تاکہ ان کی رائے حاصل کی جاسکے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر خزانہ کے پاس این جی اوز کے حوالے سے انتہائی مختصر منڈیٹ ہے جو غیر ملکی امداد لینے والی مقامی این جی اوز کو رجسٹر کرنے سے روکتا ہے۔

یہ رپورٹ 14 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Jan 15, 2017 12:57am
جبری طور پرگمشدگی سنگین جرم ھے ملک میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ھونے کی بجائے سنگین ھوتا ھے ریاستی اداروں کی خاموشی یا ناکامی شرمناک بات ھے اداروں پر تنقید کو برداشت کرنا چاہئے اگر برداشت نہیں ھورہا تو قانون سازی کرکے اس پر پابندی لگائی جائے گذشتہ دنوں لاپتہ ھونے والے افراد کے حلاف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ شروع کیا گیا ھے جو ایک خطرناک رجحان ھے پروپیگنڈے کے پیچھے کس کا ہاتھ ھے وہ بھی پوشیدہ نہیں ھے لیکن افسوس کہ وہ لوگ قانون سے بالاتر ھیں ھم سینٹ میں اس پر بحث کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ھیں اور یہ امید پیدا ھوچکی ھے کہ ایک دن ایسے لوگوں کو لگام ڈالا جائیگا