اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کے بیان میں کوئی تضاد اور غلط بیانی موجود نہیں جبکہ جہاں ریکارڈ متنازع ہو وہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھا، اس دوران مخدوم علی خان کو وزیراعظم کی تقریر کے متعلق کئی سوالات کا سامنا رہا۔

مخدوم علی خان کے ان دلائل پر کہ جہاں ریکارڈ متنازع ہو وہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی، جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عدالت آرٹیکل 184/3 کے تحت صرف تصدیق شدہ حقائق ہی سن سکتی ہے؟

جسٹس عظمت سعید شیخ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کیا 184/3 کے مقدمے میں جس قسم کے کاغذات جمع کرائے گئے ہیں وزیراعظم کو ان کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے؟

جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ میرا عدالت کے اختیار سماعت پر کوئی اعتراض نہیں، تاہم دہری شہریت کی بنیاد پر نااہل قرار دینے اور صادق اور امین کی بنیاد پر نااہلی میں فرق ہے۔

وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر پر دلائل دیتے ہوئے مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے مخدوم علی خان کو یاد دلایا کہ وزیر اعظم نے خود ہی استثنی لینے سے انکار کیا تھا۔

جسٹس عظمت کے اس سوال پر کہ کیا اس استثنیٰ کو ختم کیا جاسکتا ہے مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ استثنیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور وہی اس کو ختم کر سکتی ہے۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ زیر سماعت مقدمہ مختلف نوعیت کا ہے اور وزیراعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں بلکہ عدالت میں اس پر انحصار کیا جارہا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پہلے آپ نے کہا تھا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی، لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو اس کو استثنی حاصل ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر اسمبلی میں تقریر کو استثنی حاصل ہے تو کیا اس تقریر کو عدالت میں کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟

مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 بھی آئین کا ہی حصہ ہے۔

جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پر آرٹیکل 62 کا اطلاق نہیں ہوتا؟

اس موقع پر مخدوم علی خان نے بھارتی عدالتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے فیصلے موجود ہیں کہ جس میں اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی کا اطلاق نہیں ہوا۔

جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ کا کہنا تھا کہ کیا بھارتی آئین میں بھی آرٹیکل 62 موجود ہے؟ جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ بھارتی آئین میں بھی صادق اور امین کے الفاظ موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لندن فلیٹس 90 کی دہائی سے شریف خاندان کی ملکیت ہیں،بی بی سی

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے بیان میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ غلط بیانی موجود ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 66 کی طرح 62 بھی آئین کا ہی حصہ ہے، کیا پارلیمنٹ میں کی گئی غلط بیانی کے بعد بھی استحقاق ہوگا؟

مخدوم علی خان نے عدالت کو جواب دیا کیا کہ اول تو وزیراعظم کی جانب سے غلط بیانی نہیں کی گئی، لیکن اگر ہو تو پھر بھی انھیں استحقاق حاصل ہوگا۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیس میں براہ راست تقریر کی بنیاد پر کارروائی کرنے کا نہیں کہا گیا اور عدالت نے مختلف دستاویزات اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے جس کے بعد کیس کی سماعت کو کل تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھا اور بتایا کہ وہ آرٹیکل 62 اور 63 پر اپنے دلائل آج مکمل کرلیں گے۔

وزیراعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ آج وزیراعظم کی تقاریر، مریم نواز کی کفالت اور لندن فلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے بات کریں گے۔

واضح رہے کہ جمعہ (13 جنوری) کو ہونے والی کیس کی گذشتہ سماعت میں وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے ناہل قرار دیئے جانے سے متعلق اپنے دلائل میں کہا تھا کہ اراکین اسمبلی کی نااہلی کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے اور وزیراعظم کے خلاف آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی کے لیے عدالتی ڈیکلیئریشن ضروری ہے، کیونکہ آرٹیکل 62، 63 کے تحت نا اہلی کے لیے کسی حوالے سے سزا یافتہ ہونا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس:'نااہلی کیلئے سزا یافتہ ہونا ضروری'

مخدوم علی خان کا مزید کہنا تھا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ بطور وکیل اپنے دلائل واپس نہیں دہرائیں گے، اس موقع پر انہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف ڈاکٹر مبشر حسن کی دائر پٹیشن کا حوالہ دیتے ہوئے 2009 میں ہونے والا فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں وفاقی حکومت کو جاری کی گئی ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔

مخدوم علی خان نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سمیت راجا پرویز اشرف اور رفیق تارڑ کے سابقہ مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام مقدمات میں فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہوا۔

جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ دہری شہریت کے مقدمات میں فیصلہ براہ راست سپریم کورٹ نے کیا تھا، آپ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟

مخدوم علی خان نے عدالت کو وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ دوہری شہریت کے حوالے سے آرٹیکل 63 ون سی واضح ہے۔

جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہے کہ عدالت دائرہ اختیار رکھتی ہے اور اگر کوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے۔

جس کے جواب میں مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت کے فیصلے کی بنیاد پر تقاریر پر کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

’عدالت میں ثبوت نہیں جھوٹ جمع کرائے گئے’

سماعت کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمارے وکیل نے قانون کی کتاب پڑھی ہے اور عمران خان کے وکیل نے ردی کی کتابیں پڑھی ہیں۔

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ عمران خان نے عدالت میں ثبوت نہیں جھوٹ جمع کرائے ہیں، اس سال آپ کے جھوٹ کو زوال آئے گا جبکہ ہمارا کام قانونی عدالت اور عوامی عدالت دونوں میں جیتے گا۔

وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ خواہشات کی بناء پر عدالتوں میں کیس نہیں لڑے جاتے، عمران خان ساڑھے 3سال سے ویڈیو گیم کھیل رہے ہیں اور 2018 کے انتخابات اور اس کے بعد بھی ویڈیو گیم ہی کھیلیں گے۔

’تاریخ کا سب سے بڑا یوٹرن‘

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے تاریخ کا سب سے بڑا یوٹرن لیا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ عدالت میں تمام ثبوت دے چکے ہیں اور بی بی سی کی رپورٹ نے بھی ان کے ثبوتوں کی تصدیق کی ہے، اگر آئی سی آئی جے اور بی بی سی نے غلط کہا ہے تو نوازشریف ان پر کیس کردیں۔

واضح رہے کہ تین روز قبل برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ لندن فلیٹس 90 کی دہائی سے شریف خاندان کی ملکیت ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کے زیر تصرف فلیٹس 1990 کی دہائی میں خریدے تھے اور اس کے بعد سے ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے‘۔

وزیراعظم کے خلاف درخواست

دوسری جانب جماعت اسلامی نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی جس میں وزیراعظم سمیت وفاق، کابینہ ڈویژن اور اسپیکر قومی اسمبلی کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں عدالت سے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نے غیر قانونی طریقے سے رقوم ملک سے باہر بھیجیں اور اسی باعث ان کے خاندان کا نام پاناما لیکس میں آیا۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ رقوم غیر قانونی طور پر منتقل کرکے بیرون ملک جائیدادیں اور آف شور کمپنیاں بنائیں گئی، لندن میں فلیٹ خریدے گئے اور پاکستان میں اس کا ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔

یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں۔

لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jan 16, 2017 05:48pm
السلام علیکم: وزیر اعظم خود کہہ کیوں نہیں دیتے کہ لندن کی تمام جائیداد میری ہے، امید ہے ہماری قوم ان کو معاف کردے گی۔ اور کئی بار مزید اس تمام جائیداد کے باوجود ان کو منتخب کیا جائےگا۔ خیرخواہ