تشدد کا نشانہ بننے والی گھریلو ملازمہ طیبہ کے والدین کی شناخت کا معمہ حل ہو گیا، ڈی این اے رپورٹ کے مطابق محمد اعظم اور نصرت بی بی ہی طیبہ کے والدین ہیں۔

پمز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر الطاف نے بتایا کہ رپورٹ نیشنل فرانزک سائنس ایجنسی اسلام آباد نے تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والے محمد اعظم اور نصرت بی بی ہی طیبہ کے والدین ہیں۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ڈی این اے رپورٹ جلد وفاقی پولیس کے حوالے کر دی جائے گی جس کے بعد طیبہ کو اس کے والدین کے حوالے کیا جاسکتا ہے جو سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد سے پاکستان سوئیٹ ہوم میں مقیم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس پڑوسیوں کی 'سازش' ہے، اہلیہ جج

واضح رہے کہ طیبہ نے 9 جنوری کو میڈیکل بورڈ کے اجلاس میں اپنے والدین کو شناخت کر لیا تھا اور اجلاس کے دوران اپنے چا ر سالہ بھائی زین کوگود میں اٹھائے رکھا تھا۔

خیال رہے کہ کسمن گھریلو ملازمہ پر تشدد کی خبریں سامنے آنے کے بعد پانچ جوڑوں نے طیبہ کے والدین ہونے کا دعوی کیا تھا۔

واضح رہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج اور ان کی اہلیہ کو جھاڑو گم ہوجانے پر طیبہ کے ہاتھ جلانے، چمچ سے مارنے، اسٹور روم میں بند کرنے اور اس پر تشدد کے الزامات پر حراست میں لیا گیا تھا۔

27 دسمبر کو طیبہ کی تشدد زدہ تصویر سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد ملزم جج خرم کا کہنا تھا کہ وہ اسی روز اپنے گاؤں سے واپس لوٹے اور اہلیہ نے انہیں بتایا کہ طیبہ پڑوس کے گھر میں موجود ہے اور وہاں سے آنے سے انکار کررہی ہے۔

جس کے بعد ملازمہ کی گمشدگی کی اطلاع آئی 9 پولیس اسٹیشن کو دی گئی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ملازمہ پر 'تشدد' کا از خود نوٹس لے لیا

29 دسمبر کو جج کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ بچی ان کے گھر واپس آئی اور انہوں نے اسی روز اسے ایس ایچ او خالد اعوان کے حوالے کردیا جہاں سے طبی معائنے کے لیے طیبہ کو دارالامان لے جایا گیا۔

دوسری جانب جج کی اہلیہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ طیبہ کو انہوں نے اپنے بیٹے راجا محمد علی خان کی دیکھ بھال کے لیے رکھا تھا اور طیبہ کو لانے والی خاتون کو انہوں نے رقم بھی ادا کی تھی۔

ملزم جج اور طیبہ کے والدین کے درمیان ہونے والے 'راضی نامے' کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے بچی پر تشدد کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

سپریم کورٹ میں اس کیس کی دوبارہ سماعت بدھ (18 جنوری) کو ہوگی۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں