اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ طیبہ پر تشدد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بچی پر تشدد کرکے جرم کا ارتکاب کیا گیا۔

جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے طیبہ تشدد پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران ڈی آئی جی اسلام آباد نے طیبہ تشدد سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی اور مکمل تحقیقات کے لیے مزید ایک ہفتے کا وقت مانگا، ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ انہیں ڈی این اے رپورٹ کا انتظار ہے، کیونکہ اب تک حتمی میڈیکو لیگل رپورٹ مرتب نہیں ہوسکی۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس پڑوسیوں کی 'سازش' ہے، اہلیہ جج

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے طیبہ تشدد کیس کی ملزمہ ماہین ظفر کو دی جانے والی ضمانت کے حوالے سے استفسار کیا کہ یہ کہاں کا قانون ہے کہ بچوں پر تشدد کرکے ضمانت کروالی جائے، کیا ہم اسے غلامی کی ایک قسم کہہ سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ ضمانت کا ازسرنوجائزہ لے کر اسے مسترد کردیا جائے۔

جس پر ماہین ظفر کے وکیل نے کہا کہ ایک بار ضمانت ہوجائے تو جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی آر میں نئی دفعات شامل ہوئی ہیں اور اس بنیاد پر جائزہ لیا جاسکتا ہے، جسٹس ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ بچی پر تشدد کرکے جرم کا ارتکاب کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمہ پر تشدد: بچی کے والد نے جج کو 'معاف' کردیا

چیف جسٹس نے کہا کہ اس قسم کے جرائم کو مستقبل میں کیسے روکا جائے،انسانی حقوق کی تنظیمیں عدالت کی معاونت تعاون کریں۔

انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ایڈووکیٹ طارق نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ بچوں پر تشدد کے حوالے سے بل پیش کیا گیا تھا تاہم اس پر کام نہیں ہو سکا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس قسم کے جرائم کو مستقبل میں کیسے روکا جائے،انسانی حقوق کی تنظیمیں عدالت کی معاونت تعاون کریں۔

انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ایڈووکیٹ طارق نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ بچوں پر تشدد کے حوالے سے بل پیش کیا گیا تھا تاہم اس پر کام نہیں ہو سکا۔

دوسری جانب اٹارنی جنرل نے کہا کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے اور رجسٹرڈ این جی اوز اس معاملے میں معاونت کرسکتی ہیں۔

بعدازاں چیف جسٹس نے ڈی آئی جی کو آئندہ سماعت میں تفصیلی بیانات ریکارڈ کرکے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی۔

طیبہ تشدد کیس—کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ گذشتہ ماہ کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: طیبہ کے 'والدین' کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی اور اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں