لاہور: سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو 90 ایکڑ زرعی اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی وضاحت کے باوجود نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔

لاہور کے بیدیاں روڈ کی اراضی اُس وقت سے افواہوں کا حصہ ہے جب سے یہ خبر سامنے آئی کہ جنرل (ر) راحیل شریف کو یہاں موجود 90 ایکڑ اراضی سے نوازا جائے گا، جس کے بعد ان کو یہ اراضی دیئے جانے کے پیچھے چھپی منطق پر سوال اٹھائے جانے کی کئی رپورٹس سامنے آئیں۔

سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے حکام نے ڈان کو بتایا کہ اس الاٹمنٹ میں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ چند سالوں میں بیدیاں روڈ، جہاں جنرل (ر) راحیل شریف کی زمین واقع ہے، اشرافیہ کے لیے شہری علاقوں کے شور شرابے سے دور پرآسائش فارم ہاؤس تعمیر کرنے کے حوالے سے ایک پسندیدہ مقام بن چکا ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے میں زمین کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی آمد، جو پہلے بھی رہائشی مقصد کے لیے موجود پلاٹ کو شہید فوجیوں کے لواحقین کو عطیہ کرچکے ہیں، علاقے کی اہمیت میں اضافے کا سبب بنے گی۔

ضوابط کے مطابق آرمی افسران کو اس طرح اراضی الاٹ کیے جانے کا فیصلہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کرتا ہے جس کے بعد معاملے کو متعلقہ بارڈر ایریا کمیٹی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔

حکام کے مطابق جنرل (ر) راحیل شریف کو اراضی الاٹ کیا جانا کوئی ’انوکھی‘ بات نہیں اور یہ الاٹمنٹ موجودہ قوانین کے مطابق اور خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ زرعی اراضی ہے اور اسے صرف زراعت کے لیے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کا کوئی کمرشل استعمال نہیں کیا جائے گا جیسا کہ کچھ افراد کی جانب سے تاثر دیا جارہا ہے‘۔

حکام کے مطابق علاقے کی کمرشل اہمیت اور جنرل (ر) راحیل کو جاری کی گئی اراضی کا معاملہ الگ الگ ہے کیونکہ اس زرعی اراضی کو ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر آرمی چیف کو ریٹائرمنٹ پر اتنی ہی زرعی اراضی دی جاتی ہے اور یہ زمین لاہور کے سرحدی علاقے سے 5 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔

علاقے کی الاٹمنٹ، جو کہ دسمبر 2014 میں کی گئی، کے حوالے سے حکام کا بتانا تھا کہ ’زرعی اراضی کی الاٹمنٹ کا عمل آرمی چیف کے عہدے کی معیاد کے دوران ہی شروع ہوجاتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اس کا قبضہ فراہم کیا جاتا ہے‘۔

اس عمل میں پنجاب حکومت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کی ذمہ داری صرف ریونیو ریکارڈ میں اس جائیداد کی الاٹمنٹ کا اندراج کرنا ہے۔

پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناءاللہ نے ڈان کو بتایا کہ ’سرحد کے پانچ کلومیٹر کے قطر میں آنے والے علاقے کا کنٹرول بارڈر ایریا کمیٹی کے پاس ہوتا ہے اور یہ علاقے آرمی شہداء اور افسران کو الاٹ کیے جاتے ہیں، بارڈر ایریا کمیٹی جنرل ہیڈ کوارٹرز کے اشتراک سے ان علاقوں کا قبضہ فراہم کرتی ہے جبکہ صوبائی حکومت کا ریونیو ڈپارٹمنٹ صرف اس کا ریکارڈ محفوظ کرتا ہے۔‘

ان کا مزید بتانا تھا کہ پنجاب حکومت کو اس بات کا اختیار حاصل نہیں کہ وہ یہ زمینیں کسی کو جاری کرسکے۔


یہ خبر 25 جنوری 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں