اسلام آباد: حکومت نے بلوچستان کے علاقے حب میں کوئلے سے چلنے والے توانائی منصوبے کی پیداواری صلاحیت کو چینی کمپنی کے اعتراض کے بعد دوبارہ ایک ہزار 320 میگاواٹ تک بڑھا دیا۔

واضح رہے کہ پروجیکٹ پر کام کرنے والی چینی کمپنی منصوبے کی پیداورای میں کمی کے معاملے کو اعلیٰ انتظامیہ تک لے کر گئی تھی۔

حکومت نے 2 چینی کمپنیوں سمیت مقامی کمپنیوں کے ساتھ حب اور تھر کے مقامات پر توانائی منصوبوں کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، جن کی پیداواری صلاحیت 1 ہزار 650 میگاواٹ کے برابر ہے اور اگست 2019 تک ان کی تکمیل کا امکان ہے۔

1 ہزار 320 میگاواٹ کے حب توانائی منصوبے کا انحصار درآمدی کوئلے پر ہوگا جبکہ اس کی تعمیر کا کام حب پاور کمپنی اور چائنا پاور انٹرنیشنل ہولڈنگ کمپنی کے کنسورشیئم کی جانب سے کیا جارہا ہے، جس ہر 2 ارب 50 کروڑ ڈالر کی لاگت کا امکان ہے۔

دوسری جانب تھر میں جاری منصوبے پر حب پاور کمپنی کا ادارہ تھر انرجی لمیٹڈ کام کررہا ہے، اس منصوبے میں مقامی کوئلے کا استعمال کیا جائے گا۔

گذشتہ سال نومبر میں وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کی سربراہی میں پرائیوٹ پاور اینڈ انفرااسٹرکچر بورڈ کے اجلاس میں حب پاور پلانٹ کی پیداواری صلاحیت کو 1320 میگاواٹ سے کم کرکے 660 میگاواٹ کردیا گیا تھا تاکہ درآمدی فیول پر چلنے والے پاور پلانٹ کی لاگت کو کم کیا جاسکے۔

تاہم چینی کمہنی کی جانب سے حب پلانٹ میں کی گئی کمی کے فیصلے کو اعلیٰ سطح تک لے جایا گیا اور دسمبر میں بیجنگ میں پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے چھٹے مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس معاملے کو اٹھایا گیا۔

چینی کمپنیوں نے پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ حب پاور پروجیکٹ کی کمرشل اہمیت 1320 میگاوٹ صلاحیت کے ساتھ ہی ممکن ہے جس کا ٹیرف حکومتِ پاکستان کی درخواست پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے دیا گیا ہے۔

چینی کمپنی کے مطابق 1320 میگاواٹ کی گنجائش کے اس منصوبے پر کام اور مذاکرات کا آغاز نومبر 2014 میں شروع ہوگیا تھا اور اس حوالے سے مالی معاملات کی یقین دہانی بھی کرادی گئی تھی جس کے بعد اس میں ایک جانب سے کمی کیا جانا قابلِ قبول نہیں۔

بدھ (25 جنوری) کو دستخط کے لیے منعقدہ تقریب کی سربراہی بھی خواجہ محمد آصف اور سیکریٹری پاور محمد یوسف داگھہ نے کی۔

وزیر پانی و بجلی نے اس معاہدوں کو سی پیک کے توانائی فریم ورک کے تحت اسے اہم سنگ میل قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ حب منصوبے کی سائٹ پر ترقیاتی کام کا آغاز شروع ہوچکا ہے اور منصوبہ اگست 2019 تک مکمل ہوجائے گا اور دسمبر 2018 تک نیشنل گرڈ کے ساتھ مربوط کردیا جائے گا۔

خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ ان دونوں منصوبوں کی تکمیل سے سندھ اور بلوچستان کے عوام کی سماجی اور معاشی صورتحال پر مثبت اثر پڑے گا اور مزید منصوبوں یہاں شروع کیے جاسکے گے جس سے تھر پاکستان کی توانائی کا مرکز بن جائے گا۔

ان کا مزید بتانا تھا کہ ماحول دوست حب منصوبہ سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا جبکہ تھر کے منصوبے میں سب کریٹیکل ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے گا۔

اس سوال کے جواب میں کہ تھر میں سب کریٹیکل ٹیکنالوجی کو کیوں استعمال کیا جائے گا وزیر پانی و بجلی کا کہنا تھا کہ یہ پائلٹ پروجیکٹ ہے اور وقت گزرنے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کو جدید کردیا جائے گا۔

نندی پور پاور پروجیکٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف کا بتانا تھا کہ نندی پور پلانٹ کی جانچ اور مرمت کے بعد یہ پلانٹ گذشتہ ایک ہفتے سے اپنی پوری گنجائش یعنی 430 میگاواٹ توانائی نیشنل گرڈ کو فراہم کررہا ہے، پلانٹ میں نصب کیے گئے 6 فرنس آئل ٹریٹمنٹ پلانٹس کے باعث ماضی میں موجود کمی کو بھی پورا کردیا گیا ہے جبکہ مئی 2017 تک پلانٹ کو گیس کی فراہمی کا بھی آغاز ہوجائے گا تاکہ پلانٹ 525میگاواٹ تک توانائی پیدا کرسکے۔

دیامر بھاشا ڈیم کی زمین کے قبضے کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل تقریباً مکمل ہوچکا ہے اور صرف کچھ علاقہ باقی ہے جس کو حاصل کرنا ہے، اور منصوبے کا سنگِ بنیاد رواں سال رکھ دیا جائے گا۔


یہ خبر 26 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jan 26, 2017 06:02pm
السلام علیکم: حب پاور کمپنی اور چائنا پاور انٹرنیشنل ہولڈنگ کمپنی کے کنسورشیئم کی جانب سے حب میں کوئلے سے چلنے والے1320 میگا واٹ کے پلانٹ کو درآمدی کوئلے سے چلایا جائے گا اس پر 2 ارب 50 کروڑ ڈالر کی لاگت کا امکان ہے۔ اس طرح کی منصوبہ بندی پتہ نہیں کون کر رہا ہے اور پتہ نہیں کون اس کی منظوری کو دے رہا ہے۔ کوئلہ ادھر ادھر کے ملکوں سے آئے گا مگر ہمارے تھر کا کوئلہ استعمال کرنے کے لیے منصوبے نہیں بنائے جارہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئلہ سندھ میں ہے؟ بھارتی راجھستان میں بجلی کے پلانٹ کے لیے تھر کا کوئلہ منگوانے کی بات کی جاتی ہے مگر ہمارے اپنے ملک میں اس کے استعمال لیے اچھی منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔ خیرخواہ