جب بھی کوئی بلند آواز میں بات کرتا تو وہ سہم کر ایک کونے میں بیٹھ جاتی۔

حتیٰ کہ ٹی وی شوز، جہاں لوگ بحث و مباحثے میں الجھے ہوتے ہیں، دیکھنا بھی اسے اداس بنا دیتا ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور جذباتی صدمے سے دو چار ہو جاتی ہے، اس کے جسم میں چوکسی کا احساس جلد ہی بلند سطح پر پہنچ جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس کا جسم خوف کی زد میں مفلوج ہو جاتا ہے۔

یہ اسی طرح ہے کہ جیسے اس کے جسم کی ہر رگ یہ محسوس کرنے کی عادی بن چکی ہیں کہ چیخ و پکار ہمیشہ تشدد کی طرف لے جاتی ہے۔

پڑھیے: 'گھبراہٹ' کی وجوہات، علامات اور علاج


ایک خبر رساں ادارے نے اس کا انٹرویو لیا۔ اس نے ادارے کو اپنے تمام ڈراؤنے خوابوں کے بارے میں بتایا۔

وہ اپنے گاؤں میں زیادہ عرصہ نہیں رہ سکتا تھا؛ اسے وہاں سے کسی بھی حال میں نکلنا تھا۔ مگر شہر آ کر بھی خوش نہیں تھا کیونکہ یہ اس کا گھر نہیں ہے۔

آج کل وہ راتوں میں نیند نہیں کر پاتا، دن کے دوران وہ اپنے کام پر توجہ نہیں دے پاتا۔ اسے ڈرون کی آوازیں اب بھی سنائی دیتی ہیں۔


ان کے پیروں تلے زمین ہلنے لگی اور ان کے گرد موجود دیواریں ملبے کا ڈھیر بننا شروع ہو گئیں۔

وہ ایک یا دو گھنٹوں یا شاید ایک پورے دن وہاں پھنسے رہے۔ انہوں نے اپنے اوپر ملبہ محسوس کیا اور اپنی زندگی بچانے کی تگ و دو میں گرد آلود ہوا میں ہلکی گہری سانس لینے کی جب مشقت کرنے لگے تو دور دراز سے انسانوں کی چیخ وپکار سننے لگے۔

اگر وہ زندہ بھی رہے تو وہ کس طرح ان باتوں کو اپنے ذہنوں سے مٹا پائیں گے؟

پڑھیے: میں نے ڈپریشن سے کیسے نمٹا؟


اگر آپ پی ٹی ایس ڈی، (پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) یا کسی صدمہ انگیز واقعے سے لگنے والی ذہنی و جذباتی چوٹ کے بارے میں گوگل پر سرچ کریں گے تو آپ کی اسکرین جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں کی کہانیوں سے بھر جائے گی۔

میرے کلینک میں کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی ایس ڈی صرف ان افراد کو لاحق ہوتا ہے جنہوں نے جنگ دیکھی ہو۔ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

پی ٹی ایس ڈی کیا ہے؟

ایک شخص پی ٹی ایس ڈی کا شکار اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایسے انتہائی حالات سے گزرتا ہے جہاں اس کی زندگی یا تحفظ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ڈراؤنے خواب، اچانک ماضی کے تصورات کا آنا اور دوبارہ صدمے کو محسوس کرنا، ذہنی تناؤ اور پریشانی کا شکار رہنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر چونک جانا اور ذہنی دباؤ میں رہنا چند ایسی علامات ہیں جو پی ٹی ایس ڈی کے مریضوں میں پائی جاتی ہیں۔

کسی موقع پر صدمہ پہنچنے کے بعد کئی لوگوں کو اپنے روزمرہ کے کام کاج میں خود کو دوبارہ ڈھالنے کے لیے ایک عرصے تک مشکل وقت سے گزرنا ہوتا ہے، مگر ان میں ہر کوئی پی ٹی ایس ڈی کا شکار نہیں ہوتا۔ وقت اور مدد کے ساتھ زیادہ تر لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی میں لوٹ آتے ہیں۔

مگر وہ افراد جن میں پریشانی، ڈراؤنے خواب اور نیند نہ آنے کی علامات وقت کے ساتھ بد سے بدتر ہو جائیں اور ان کے دن بدن کے کام کاج کو متاثر کریں تو وہ اس مرض کا شکار ہیں۔

اس مرض کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟

ان عوامل اور ان حادثات کی اقسام کی فہرست کافی طویل ہے جن کی وجہ سے آج کے پاکستان میں پی ٹی ایس ڈی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دہشتگردی، فرقہ وارانہ تشدد، ٹارگٹ کلنگ ، سیلاب اور زلزلے ان عناصر میں چند ایک ہیں۔

ملک میں دہشتگردی سے ہونے والی سالانہ شرح اموات 2009 میں 3315 تک کی کثیر تعداد تک جا پہنچی تھی، جو کم ہوتے ہوتے 2014 تک 2314 تک آ گئی۔ کم از کم 18 لاکھ پاکستانی پر تشدد کارروائیوں کی وجہ سے ملک کے اندر ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوئے اور 7 لاکھ 71 ہزار افراد قدرتی آفات کی وجہ سے دربدر ہوئے۔

سال 2008 کے دوران پاکستان میں 59 خود کش بم دھماکوں کے نتیجے میں 889 افراد ہلاک اور دیگر 2072 افراد زخمی ہوئے۔ اسی سال 34 ڈرون حملے بھی ہوئے جس کے نتیجے میں دہشتگردوں کے ساتھ کئی سویلین بھی مارے گئے۔

اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں عوام میں مقبول ٹی وی چینلز بھی بار بار تشدد کے مناظر نشر کرتے ہیں جو منفرد انداز میں صدمے پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔

صدمے کا باعث بننے والے دیگر ایسے بھی واقعات ہیں جو بین الاقوامی میڈیا تک پہنچ نہیں پاتے۔ بچے اپنے والدین میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت کو دیکھتے ہیں، دھتکارے گئے محبوب کی خواتین پر تیزاب گردی، گیس چولہے کے "حادثات"، "غیرت" کے نام پر قتل اور کئی صورتوں میں گھریلو تشدد۔ یہ تمام حالات پی ٹی ایس ڈی کا باعث بنتے ہیں۔

2005 کے زلزلے کے بعد 1200 افراد پر تحقیق کی گئی، جس میں 55.2 فی صد خواتین اور 33.4 مرد پی ٹی ایس ڈی کا شکار تھے۔ جوائنٹ فیملی کے ساتھ رہنے سے اس مرض سے تحفظ فراہم ہوا۔ خیمے میں رہنے کی وجہ سے عام نفسیاتی دباؤ دیکھنے کو ملا مگر پی ٹی ایس ڈی نہیں تھا۔

پڑھیے: میں خود کو پاگل نہیں کہلوانا چاہتی تھی

2005 میں زلزلے کے مرکز کے قریب واقع اضلاع میں اپنی جانیں بچانے میں کامیاب رہنے والے 300 افراد کے ایک دوسرے سروے سے پتہ چلا کہ 30 ماہ بعد ان علاقوں کے لوگوں کے درمیان پی ٹی ایس ڈی کے پھیلاؤ میں کافی حد تک اضافہ ہو گیا تھا۔

چاہے خاتون ہو، بوڑھا، غیر شادی شدہ، گھرانے کا سربراہ، بے روزگار یا کم آمدنی والا اور عارضی مقام پر رہائش پذیر ہو وہ پی ٹی ایس ڈی کے مرض کے بڑی سطح کے رسک پر تھے۔ مذہبی رجحان ایسے میں ایک حفاظتی عنصر دیکھنے کو ملا۔

ایک دوسری تحقیق سے 30 فیصد کے قریب ڈپریشن کے واقعات کا پتہ چلا اور پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے میں خواتین میں دو گنا زیادہ تھی اور یہ شرح ڈپریشن کا شکار ہونے کی شرح سے 4 گنا زیادہ ہے۔ زلزلہ زدہ علاقوں کے 1100 سے زائد بچوں سے حاصل کیے جانے والے اعداد و شمار سے یہ نشاندہی ہوئی کہ زلزلے کے 18 ماہ بعد 64.8 فیصد بچوں میں پی ٹی ایس ڈی کی نمایاں علامات نظر آئیں، 34.6 فیصد بچوں میں جذباتی اور رویوں کے مسائل کے آثار نظر آئے۔

تقریباً روزمرہ کی بنیادوں پر ہونے والا تشدد نہ جانے کتنے نفسیاتی امراض کا باعث بنتا ہے جن کی نہ شناخت ہو پاتی ہے اور یوں ان کے مسائل حل ہونے سے رہ جاتے ہیں۔

مسائل اور رکاوٹیں

قدرتی آفات میں بحالی اقدامات کے دوران انفرا اسٹرکچر اور منصوبہ بندی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں کم اسٹاف اور اضافی کام کرنے والے ملازمین کے حامل ہسپتال جسمانی اور ذہنی صدمے کا شکار ہونے والے مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔

ذہنی امراض کو باعث بدنامی، صدمے کا شکار بننے والے کو مزید ذہنی کوفت سے "محفوظ" بنانے کی خاطر صدمے سے متعلقہ کسی قسم کی بات نہ کرنے کا سماجی تصور اور وہ افراد جو اپنی مشکل کا اظہار کرتے ہیں انہیں ایمان کی کمزوری سے تعبیر کر دینا، یوں آپ کے پاس اس مرض کے علاج کو نظر انداز کرنے کے رویے ہر سوں ہوتے ہیں۔

ایک چیلنچ اور بھی ہے جو مشکل میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے وہ ہے اس تربیت یافتہ عملے کی عدم دستیابی جو ایسے مریضوں کی جذباتی ضروریات کو سمجھتے ہوئے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

دیگر سماجی تصور جیسے گھر کی بات گھر میں، سے تشدد کا شکار بننے والے کو باقاعدہ علاج کروانے میں مشکل حائل ہوتی ہے۔ ایک عام کراچی والا موٹی کھال کے ساتھ ہر چیز نظر انداز کرکے آگے بڑھ جانے کی ریت سے خوب آشنا ہے۔

مسئلے کا حل

بڑی سطح پر کہیں تو بحران کو سنبھالنے اور علاج کے غرض سے حکومت کو انفرا اسٹرکچر بنانے اور تربیت یافتہ فزیشن اور دیگر صحت مہیا کرنے والوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو زیر غور لانا ضروری ہے کہ پی ٹی ایس ڈی کا بنیادی طریقہ علاج تھراپی ہے۔ مرض کی نوعیت کے اعتبار سے انفرادی یا گروپ تھراپی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔

پی ٹی ایس ڈی کی علامات کی روک تھام کے لیے کئی مختلف ادویات کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں مگر آپ کو بے شمار دواؤں کے بارے میں ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔ میں پہلے بھی اپنے مضامین میں ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ادویات کے استعمال، بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے دوائیں نہ خریدنے، اور طویل عرصے تک بغیر تشخیص کروائے ادویات کے استعمال سے اجتناب اور نشہ آور دوائیوں کے اضافی استعمال نہ کرنے پر نہ جانے کتنی بار زور دے چکی ہوں۔

آپ مدد کیوں نہیں کرتیں؟

میں نے اس مسئلے پر بات کرنے پر شرم کو ختم کرنے اور ذہنی امراض کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کی کوشش میں مضامین لکھنا شروع کیے۔ میں بلاگ کے نیچے آنے والے کھلے لفظوں میں تبصرے اور رد عمل دیکھ حیران رہ گئی۔ یہ دیکھ کر دلی خوشی ہوئی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس اہم مسئلے پر بات کرنے پر رضامند ہیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام کے ایک بڑے حلقے تک پہنچا جاسکتا ہے اور ایک مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

پڑھیے: ڈپریشن اور 'ناشکرے پن' میں فرق

کچھ قارئین نے مایوسی کا اظہار کیا کہ وہ مجھ سے ای میل یا کسی اور ذریعے سے رابطہ نہیں کر سکتے۔ میں مجھ میں اس قدر اعتماد ظاہر کرنے پر ان کی شکر گزار ہوں مگر اپنے لیے یا پھر اپنے پیاروں کی مدد کے لیے میلوں دور بیٹھے کسی شخص سے رابطے کے ایسے ذرائع سے بات کرنا جس میں نہ آپ کا تجربہ درست طریقے سے مجھ تک پہنچ سکے اور نہ آپ کی بات، یہ کرنا مناسب نہیں۔

ایسے معاملات میں اپنے تجربات کی درست ترجمانی ہی علاج کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہے۔ میں آپ پر کوئی احسان تو دور کی بات بلکہ آپ کے لیے کہیں ضرر رساں نہ ثابت ہو جاؤں۔

اس کے متبادل کے طور پر ذیل میں چند بنیادی ہدایات ہیں جو آپ کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں:

کسی مستند ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں: زیادہ تر میڈیکل کالجوں میں امراضِ نفسیات کے شعبے قائم ہوتے ہیں اور ملک کے بڑے شہروں میں ماہر نفسیات اور ماہر ذہنی امراض کی پرائیوٹ کلینک موجود ہیں۔

کسی دوسرے ماہر کے پاس جائیں: آپ نے جس ماہر ذہنی امراض سے اپنے مسائل پر بات کی ہے، اگر وہ آپ کے لیے اطمینان بخش ثابت نہ ہوں تو کسی ایسے دوسرے ماہر سے رجوع کریں جن سے آپ باآسانی بات چیت کر سکتے ہوں اور جو آپ کو تمام چیزیں کو بہتر و سہل انداز میں سمجھائیں۔

ماہرین کی اسناد اور تجربات کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں: پتہ لگائیں کہ آپ کا علاج کرنے والے ماہر نفسیات نے کس جگہ سے پروفیشنل تربیت حاصل کی ہوئی ہے۔

ادویات کے زیادہ استعمال پر احتیاط سے کام لیں: ڈاکٹر کی ہدایات کے باوجود بھی ادویات کے زیادہ استعمال یا مختلف ادویات کے اوور ڈوز سے احتیاط سے کریں۔ دواؤں کے بدلنے کی وجوہات پوچھیں۔

اور آخر میں؛

اپنے لیے خود ایک بہتر ماہر نفسیات بنے رہیں۔ اس دوران میں مضامین کے ذریعے اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھوں گی۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں