تباہ شدہ زیارت ریزیڈنسی کی ایک یادگار تصویر -- فائل فوٹو
تباہ شدہ زیارت ریزیڈنسی کی ایک یادگار تصویر -- فائل فوٹو

آدھی صدی سے بھی زائد عرصے سے زیارت دو چیزوں کے لئے مشہور رہا ہے-

نمبر ایک، دنیا کے دوسرے بڑے صنوبر (Juniper) کے جنگلات کی وجہ سے اور دوسرے اس شاندار ریزیڈنسی کی وجہ سے جہاں بانی پاکستان نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے- میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ زیارت جاؤں اور مجھے آخر کار 10 سال پہلے اس کا موقع مل گیا-

وہ ملاقات اتنی خاص تھی کہ میں نے وہاں دوبارہ جانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور شاید میں اب وہاں نہ جاؤں-

بہرحال میرے پاس تصویریں ہیں اور وہ تمام یادداشتیں ہیں جو مجھے وقت اور تاریخ کے اس ناقابل فراموش سفر کے دوران ملیں-

وہ برٹش تھے جنہوں نے زیارت کو ایک ہل سٹیشن بنایا اور گرمیوں میں اسے اپنے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا- قائد اعظم ریزیڈنسی، سنہ 1892 میں تعمیر کی گئی- در اصل وہ برٹش گورنر جنرل کے ایک ایجنٹ کی پرانی رہائش گاہ تھی-

سفر نگار سلمان راشد، کے مطابق، "اس کا ابتدائی مقصد ایک سنیٹوریم کے طور پر استعمال تھا- 2450 میٹر سمندر سے بلند، اور ایک جنگل کے بیچوں بیچ، جہاں کی ہوا، صنوبر کی خوشبو سے آج بھی لبریز ہے، اس جگہ کا اس سے بہتر استعمال نہیں ہو سکتا تھا- یہ عمارت اپنے اصل مقصد کے لئے چند ہی سال استعمال کی جا سکی- 20 ویں صدی کے اوائل میں اسے گورنر جنرل کے کوئٹہ کے ایجنٹ کی رہائش کے لئے استعمال کیا جانے لگا"-

یہ ریزیڈنسی پہلی جگہ تھی، جسے زیارت پہنچتے ہی میں دیکھنے گئی- ہمارے گروپ کو (میں لیڈ پاکستان کے ایک گروپ کے ساتھ وہاں گئی تھی) اس کے لوہے کے گیٹ تک پنہچنے کے لئے ایک پہاڑی سر کرنا پڑی- اس سے آگے ہمیں چنار کے درختوں اور پھولوں کے باغات والے سر سبز لان دیکھنے کو ملے- وہ دو منزلہ مکان اپنے چوڑے برآمدوں، ٹمبر کے پلرز اور لکڑی کے فرش کے ساتھ اپنی تصویر سے زیادہ خوبصورت تھا-

مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ قائد کی ریزیڈنسی ابھی بھی بہترین حالت میں ہے- کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ تعمیر کے دوران استعمال کی گئی صدیوں پرانے جونیپر کی لکڑیوں کا کمال ہے- جونیپر سے ڈھکے، پہاڑی علاقے کی ٹھنڈی، خشک ہوا، قائد اعظم کے لئے اچھی تھی، جب وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں تپ دق کی آخری اسٹیج سے نبرد آزما تھے اور زندگی کا ہاتھ تھامے ہوے تھے-

میں تصور میں انہیں برآمدے میں بیٹھے، ریزیڈنسی کو چاروں طرف سے گھیرے جونیپر کے گھنے جنگلات کو تکتے ہوے، مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوے، دیکھ سکتی ہوں- انہیں شاید اندازہ تھا کہ وہ اپنے وقت سے بہت پہلے جا رہے ہیں-

زیارت ریزیڈنسی یقیناً تاریخ میں ڈوبی ایک جادوئی عمارت تھی- ایک عرصے سے اسے قومی یادگار اور ورثہ سمجھا گیا اور اچھی طرح اسکی حفاظت کی گئی- اندر جا کر، ہم ایک چرچراتی لکڑی کی سیڑھی چڑھے اور قائد اعظم کی آرام گاہ دیکھی، جس میں ایک شاندار میز اور صاف ستھرا بستر لگا ہوا تھا-

دیوار پر انکی بلوچستان کے ساتھیوں کے ساتھ بلیک اینڈ وائٹ تصاویر آویزاں تھیں- میں نے انکی قاضی عیسا (ایک بہت اچھے دوست کے دادا جان، جو بلکل انہی کی طرح دکھتا ہے) کے ساتھ گفتگو کی تصویر بنا لی، جنہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ بنانے میں مدد کی تھی-

قائد اعظم اکثر بلوچستان جایا کرتے تھے اور قاضی عیسا نے ان کے لئے ایک پمفلٹ تیار کیا جس کا عنوان تھا "بلوچستان: کیس اینڈ ڈیمانڈ"، جو حقیقت میں ان اصلاحات کا خاکہ تھا جن کا اطلاق قائد کی رہنمائی میں ہونا تھا- ایک ویب سائٹ 'سٹوری آف پاکستان' کے مطابق، "بلوچستان کے لئے 'کیس اینڈ ڈیمانڈ' پر کام جزوی طور پر آزادی کے بعد شروع ہو گیا تھا، لیکن قائد اعظم کے انتقال کے فوراً بعد شروع ہو جانے والی اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے سرد خانے کی نظر ہوگیا، یہی کشمکش آگے جا کر غیر جمہوری حکومتوں کی وجہ بنی"-

بلوچستان کی یہ ریزیڈنسی، جہاں قائد نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ گزارے اور انکی تاریخ کا اھم ترین آخری باب رقم ہوا، اور ایک جواں سال قوم (جس کو وجود میں آئے فقط ایک سال ہوا تھا) کی حیثیت سے ہمارا پہلا باب- آج لیاقت علی خان (جو ہمارے پہلے وزیر اعظم تھے) جنہیں بہت سے لوگ جناح کا داہنا ہاتھ خیال کرتے ہیں، لیکن زیارت میں جناح کے آخری دنوں کے دوران جو واقعات پیش آۓ وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ سب کلیتاً درست نہیں تھا-

اپنی وفات سے صرف چند ہفتوں پہلے، جب جناح زیارت میں آرام فرما رہے تھے، لیاقت علی خان اور چودھری محمد علی، ایک دن خود انکی حالت دیکھنے آۓ ( اس وقت حالت غیر یقینی تھی)-

لیاقت علی خان 20 منٹ تک جناح کے پاس اکیلے رہے- بعد میں، جب فاطمه جناح اپنے بھائی کے بیڈروم انھیں دیکھنے گئیں تو انہیں بے آرام اور گہری سوچ میں پایا-

شکر حسین شاکر کی کتاب 'محترمہ جناح: حیات و فکر' میں انہوں نے ایک پورا باب فاطمہ جناح کی تحریر 'مائی برادر' کے اقتباسات کے لئے وقف کیا ہے- وہ لیاقت علی خان کی زیارت ملاقات کے بارے میں بصیرت انگیز واقعہ بیان کرتے ہیں- قائد اعظم نے اپنی بہن سے کہا کہ وہ دوپہر کے کھانے پر ان کے ساتھ بیٹھیں- "وہ ہمارے مہمان ہیں (صفحہ 63 )"-

آگے جا کر ہمیں پتا چلتا ہے کہ فاطمہ جناح، میز سے اٹھ گئی تھیں، کیوں کہ لیاقت علی خان زور زور سے ہنس رہے تھے اور غیر معیاری لطیفے سنا رہے تھے (صفحہ 148)- انہیں برا لگا کیوں کہ ان کا بھائی کافی بیمار تھا اور مرنے کے قریب تھا- یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جناح کی آخری دنوں میں فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان کے درمیان سنگین اختلافات پیدا ہو گۓ تھے- کچھ لوگوں کا کہنا ہے اسکی وجہ اقلیتوں کا معاملہ تھا-

میرے سسر، ایئر کموڈور (رٹائرڈ) سجاد حیدر جنہوں نے اپنی کتاب 'فلائٹ آف فیلکن' کے لئے جناح کے آخری دنوں کے بارے میں کچھ تحقیقات کیں، پیش لفظ میں لکھتے ہیں، "یہ لیاقت علی خان کی ذمہ داری تھی کہ وہ دن رات محنت کر کے قائد اعظم کے نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کا آئین بناتے- بہرحال لیاقت علی خان ایک عوامی لیڈر نہیں تھے اور انہوں نے اپنی توانائی اپنے لئے جگہ بنانے اور انتخابی حلقہ تیار کرنے میں صرف کردی-"

وہ مزید لکھتے ہیں، "ان کے بہترین مشیر، چودھری محمد علی، گو کہ ایک بہترین بیوروکریٹ تھے، مودودی کی عقیدہ بنیاد پرستی سے بری طرح متاثر تھے، جو کہ آئین کے لئے لکھے گۓ ان کے پیش لفظ میں پوری طرح نمایاں تھا- جس نے حکومت میں اسلام کو لا کر، آئین کو مذہبی مرکز بنا دیا- یہ بانی پاکستان کے تصور کے خلاف تھا-"

انہوں نے آگے لکھا ہے کہ "آزادی سے پہلے تک قائد اعظم کے رہنما اصولوں پر پوری طرح اتفاق راۓ موجود تھا کہ پاکستان میں سیکولر وفاقی نظام حکومت ہوگا، پارلیمانی جمہوریت ہوگی، جسے کبھی جڑ پکڑنے کا موقع نہیں دیا گیا- اب یہ سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ آخر کیوں ؟"

ڈاکٹر الہی بخش، جناح کے ذاتی معالج، اپنی کتاب 'ود دی قائد اعظم ڈیورنگ ہز لاسٹ ڈیز' میں قائد اعظم کے زیارت اور کوئٹہ میں علاج اور کراچی تک، ان کے آخری سفر کی تفصیلات مہیا کرتے ہیں-

ڈاکٹر الہی بخش کے مطابق قائد کی حالت زیارت میں بہتر ہونا شروع ہوگئی تھی لیکن انہیں جب کچھ ٹیسٹ کروانے کے لئے کوئٹہ لایا گیا تو وہاں انہیں انفیکشن ہو گیا- ڈاکٹر الہی بخش اور دیگر ڈاکٹروں نے محترمہ فاطمہ کو بتایا کہ شاید کوئی معجزہ ہو جاۓ، ورنہ قائد اعظم کے ایک یا دو دن سے زیادہ زندہ رہنے کا امکان نہیں- قائد اعظم کو کراچی لے جانے کے انتظامات کراۓ گۓ-

اپنی زندگی کے آخری دن یعنی، 11 ستمبر 1948، کو جب آخر کار قائد اعظم کراچی پنہچے تو ایک کھٹارا ایمبولینس بنا کسی نرس کے، انکو لینے ماڑی پور ایروڈروم بھیجی گئی- شہر آتے وقت ایمبولینس راستے میں خراب ہو گئی اور اسی کی وجہ سے بے پناہ گرمی کے بیچ انکا اختتام اور قریب آگیا- انکی وفا شعار بہن، فاطمہ جناح، مستقل ان کے ساتھ رہیں- انہوں نے ایک گھنٹہ دوسری ایمبولینس آنے کا انتظار کیا، اور بعد میں جناح اس شام انتقال کر گۓ-

فاطمہ جناح کے اپنے الفاظ میں؛

"جب وہ مرے، تو سواۓ میرے اور ان کے ڈاکٹر کے، ان کے بستر کے پاس کوئی نہ تھا- انکی وفات سے کئی سال پہلے سے ان کے معالجوں کے درمیان کھینچا تانی چل رہی تھی کہ وہ آرام زیادہ کیا کریں اور محنت طلب کام کم کیا کریں، لیکن وہ ہمیشہ اسکا الٹ کرتے، یہ جانتے ہوے بھی کہ وہ کس خطرے کی طرف بڑھ رہے ہیں- اس کے باوجود وہ اپنے مقصد کے لئے کوشاں رہے، پاکستان کا حصول اوراس کے بعد نمودار ہونے والے واقعات- پاکستان کے قیام اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کی وجہ سے وہ محنت کرتے رہے- اکثر ان کے ڈاکٹر مجھ سے شکایت کرتے کہ وہ انکا مشورہ نہیں مانتے- میں بھی انہیں قائل نہ کر سکی کہ وہ اپنی گرتی ہوئی صحت پر توجہ دیں- انکا کمزور جسم اب اور بوجھ برداشت نہیں کر سکتا تھا- انکی ناقابل تسخیر ہمّت نے انہیں اپنی بگڑتی صحت کو لاحق سنگین خطرات کو نظر انداز کرنے میں مدد کی- قائد اعظم اب نہیں رہے- وہ زندہ رہے تا کہ پاکستان کا قیام ہو سکے، وہ مر گۓ تا کہ پاکستان زندہ رہے-"

افسوس، ایسا لگتا ہے کہ قائد اعظم کا ایک ترقی یافتہ اور جمہوری پاکستان کا خواب، زیارت کے ان آخری دنوں میں ان کے ساتھ ہی دم توڑ گیا- بیمار اور کمزور، وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ ان واقعات پر قابو پا سکیں جن کا آغاز ہو چکا تھا-

مجھے اس بات کی آج سے پہلے خبر نہ تھی کہ "عام طور پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ فاطمہ جناح کو ان کے بھائی کے بعد گورنر جنرل بنایا جاۓ گا اور یہ کہ کابینہ کی طرف سے خواجہ ناظم الدین کا انتخاب حیران کن تھا"- آخر کار، فاطمہ جناح، ایک عرصہ اپنے بھائی کے خواب کو چکنا چور ہوتے دیکھنے کے بعد، نا خوش اور مایوس ہو کر موت کی گود میں چلی گئیں-

آج وہ گھر، جو قائد اعظم کے آخری دنوں کی عظیم یادگار تھا، نہیں رہا- اسے ان قوتوں نے جلا کر راکھ کر دیا، جن کا آغاز تب ہوا جب پاکستان تفریق سے آزاد ایک مشترکہ جمہوریہ بننے میں ناکام ہو گیا- ریزیڈنسی کا ڈھانچہ تقریباً پورا ہی لکڑی کا بنا ہوا تھا، اسی لئے اس نے رات کے آخری پہروں میں اس یادگار پھینکے گۓ گرینیڈوں کی وجہ سے فور اً آگ پکڑ لی ہوگی-

وہ تباہی جس کا آغاز، زیارت میں قائد اعظم کی زندگی کے آخری چند مہینوں میں شروع ہوا تھا، آج مکمل ہو گیا- آج ہم ان کے مکان، ان کے آخری سنگ مزار کی تباہی کا ماتم کر رہے ہیں-ََِِ


مصنف اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی، ایوارڈ یافتہ ماحولیاتی صحافی ہیں، جو موسمی تبدیلی اور صحت کے معاملات پر بھی لکھتی ہیں-

ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں