لاہور/ بہاولپور: پاکستان ریلویز اور ریلوے پولیس نے کراچی کے پورٹ قاسم سے ساہیوال کو پاور پلانٹ کے لیے کوئلہ لے جانے والی دوسری اسپیشل ٹرین کی ایک بوگی سے 22 ٹن کوئلے کے 'غائب' ہونے کے معاملے کی الگ الگ تحقیقات کا آغاز کر رکھا ہے۔

حکام کو کوئلے کے 'غائب' ہونے کا علم اُس وقت ہوا جب ساہیوال کول پاور پلانٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز نے ریلوے حکام کو ایندھن کی ترسیل میں تاخیر کی شکایت کی، امکان ظاہر کیا گیا کہ ٹرین کی مذکورہ بوگی بہاولپور شہر سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر لیاقت پور اور ڈیرہ نواب صاحب کے درمیان کلاب ریلوے اسٹیشن پر 'خالی' ہوئی۔

18 بوگیوں پر مشتمل خصوصی ٹرین کی حفاظت پر مامور ریلوے گارڈز نے ساہیوال کے اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کو جمعرات (2 فروری) کی صبح غائب ہوجانے والے کوئلے کے بارے میں مطلع کیا۔

جس کے بعد ریلویز کے سی ای او جاوید انور نے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دے کر معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا، تاہم کمیٹی کو مکمل انکوائری کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔

ریلویز کے ترجمان نے 'چوری' کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ابتدائی انکوائری کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ کوئلہ بوگی سے کہیں گر گیا ہو۔

مزید پڑھیں:ساہیوال پاور پلانٹ: ٹرین کی بوگی سے 22 ٹن کوئلہ 'غائب'

دوسری جانب غائب ہونے والے کوئلے کی مقدار کے حوالے سے بھی متنازع رپورٹس ہیں، کول پاور اسٹیشن پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کے مطابق بوگی میں 22 ٹن کوئلہ تھا، جبکہ متعدد ریلوے حکام کا اصرار ہے کہ کوئلے کی تعداد تقریباً 70 ٹن تھی۔

ریلوے حکام کے مطابق 'مال گاڑی کے یہ ڈبے چین میں تیار ہوئے، جنھیں پاکستان میں اسمبل (جوڑا) گیا، ان میں مینوئل اور ایک آٹومیٹک اَن لاکنگ سٹم ہوتا ہے ، جس کی مدد سے پوری بوگی (ڈبے) کو اَن لوڈ (سامان اتارا) جاسکتا ہے، یہ سسٹم 30 سیکنڈ میں 70 ٹن کوئلے کو ایک ساتھ اتارنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ کسی نے کراچی سے ساہیوال سفر کے دوران ارادی یا غیر ارادی طور پر مینوئل اَن لوڈنگ سسٹم کو استعمال کرلیا ہو'۔

ترجمان کے مطابق، 'مستبقل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے ہم نے ان ڈبوں میں ایک ڈیوائس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جو انھیں اَن لاک کرنا ناممکن بنا دے گی'۔

تاہم ساہیوال پلانٹ کے ایک عہدیدار نے کوئلے کے حادثاتی طور پر غائب ہونے کے دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے سوال کیا، 'کیا یہ ممکن ہے کہ بوگی سے کوئلے کے اخراج کا واقعہ رپورٹ ہوا ہو اور کسی نے اس کا نوٹس نہ لیا ہو؟'

دوسری جانب پاکستان ریلویز کے اسسٹنٹ ٹریفک آفیسر اور ایک اسسٹنٹ میکینیکل آفیسر نے لیاقت پور سے ڈیرہ نواب صاحب تک کے ٹریک کا دورہ کیا اور پلیٹ فارمز اور دیگر علاقوں کو چیک کیا تاکہ غائب ہوجانے والے کوئلے کا کچھ سراغ مل سکے، انھوں نے ریلوے کراسنگ لائن پر تعینات واچ مین سے بھی انٹرویو کیا۔

علاقے کے زیادہ تر لوگوں کا اصرار ہے کہ کوئلہ کلاب اور ڈیرہ نواب صاحب ریلوے اسٹیشنز پر چوری نہیں ہوسکتا۔

کچھ ریلوے عہدیداران کا کہنا تھا کہ جس مقدار میں کوئلہ غائب ہوا، اگر اسے کوئی کہیں اور لے جانے کی کوشش کرتا تو بہت دور سے وہ نظر آجاتا، انھوں نے اس امکان کا اظہار کیا کہ بوگی شروع سے ہی خالی تھی۔

اس حوالے سے انکوائری جاری ہے اور ریلوے کی مزید ٹیمیں جمعہ (3 فروری) کو سائٹ کا دورہ کریں گی۔

دوسری جانب کلاب اسٹیشن کے ماسٹر مہر فیاض نے ڈان کو فون پر بتایا کہ انھیں ٹریک کے ساتھ کوئلے کی کچھ راکھ ملی ہے، لیکن یہ اتنی مقدار میں نہیں ہے، جتنا کوئلہ غائب ہوا ہے، ریلوے پولیس کا بھی یہی کہنا ہے کہ کلاب یا کسی اور ریلوے اسٹیشن پر ایسا کچھ نہیں ملا جس سے اس کوئلے کی چوری ظاہر ہوتی ہو۔

یہ خبر 3 فروری 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

Murad quasim Feb 03, 2017 04:41pm
Can't stop laughing at the materiality threshold here. Bechara guard. Wrong place at the wrong time. May have to go through extreme grilling if just not about to lose the job. 22 ton probably worths less than $1200, then what's the whole fuss about. We are a rich nation which spends 100s of millions on petrol for our elite politicians and bureaucrats every month. Food for thought!
ahmak adamı Feb 03, 2017 04:56pm
poland meyn sona ghayib huva tha humarey haan koela? jagah jagah ki baat hey