فرانس : خنجر لہراتا حملہ آور فائرنگ سے زخمی

03 فروری 2017
واقعے کے بعد دنیا کے سب سے بڑے عجائب گھر تک جانے والے راستوں کو سیل کردیا گیا۔—فوٹو: اے ایف پی
واقعے کے بعد دنیا کے سب سے بڑے عجائب گھر تک جانے والے راستوں کو سیل کردیا گیا۔—فوٹو: اے ایف پی

پیرس: دنیا کے سب سے بڑے عجائب گھر لووَر میں دو بریف کیس اور خنجر لے کر داخل ہونے کی کوشش کرنے والے مبینہ حملہ آور کو گولیاں مار کر زخمی کردیا گیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ہاتھ میں خنجر لہراتے اس شخص نے سیکیورٹی اہلکار پر بھی حملے کی کوشش کی جبکہ اس سے قبل مبینہ طور پر حملہ آور نے 'اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا تھا۔

واقعے کے بعد دنیا کے سب سے بڑے عجائب گھر تک جانے والے راستوں کو سیل کردیا گیا۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس کے سٹی پولیس چیف مائیکل کیڈٹ کا صحافیوں کو بتانا تھا کہ مبینہ حملہ آور کو پانچ گولیاں ماری گئیں، اس کی حالت نازک ہے تاہم وہ زندہ ہے البتہ حملہ آور کے پاس موجود دونوں بریف کیس میں کوئی بارودی مواد موجود نہیں تھا۔

دوسری جانب فرانسیسی وزیر اعظم برنارڈ کیزینیو نے حملے کو دہشت گردی قرار دیا۔

فرانس کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان پیری ہینری بینڈٹ کا صحافیوں کو بتانا تھا کہ حملہ آور کی شناخت اور قومیت اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایلان کردی بھی چارلی ہیبڈو کی شرانگیزی کا شکار

واضح رہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فرانس میں صدارتی انتخابات چند ماہ کی دوری پر ہیں اور ملک میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

گذشتہ دو سال کے دوران فرانس کے 200 سے زائد شہری داعش کے ہاتھوں مختلف واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔

پیرس میں سیاحوں کی توجہ کا اہم مرکز سمجھے جانے والے لووَر پیرس کے آس پاس بھی سیکیورٹی انتظامات سخت ہوتے ہیں اور متعدد اہلکار آٹومیٹک رائفلز کے ساتھ علاقے کی نگرانی پر مامور رہتے ہیں۔

سٹی پولیس چیف کے مطابق حملہ آور کی موجودگی کی اطلاع ملنے کے بعد عجائب گھر میں موجود 250 سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

یاد رہے کہ جنوری 2015 کے آغاز میں فرانسیسی اخبار چارلی ایبڈو میں شائع ہونے والے متنازع کارٹونز اور جہادی حملہ آور کے حملے میں صحافیوں کے قتل کے بعد سے فرانس میں حملے کا سلسلہ جاری ہے۔

7 جنوری 2015 کو چارلی ہیبڈو پر دو بھائیوں نے مسلح حملہ کیا تھا جس میں جریدے کا ایڈیٹر، 5 کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے.

ابتدائی رپورٹس یہ سامنے آئی تھیں کہ رسالے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی تصویر شیئر کرنے پر یہ حملہ ہوا ہے تاہم بعد ازاں اس حملے کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی تھی اور اس کی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علی وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہی بتائی گئی تھی.

گزشتہ برس بھی جولائی 2016 میں فرانس کے جنوبی شہر نیس میں ایک ڈرائیور نے قومی دن کی تقریبات میں شریک افراد کو ٹرک کے نیچے کچل دیا تھا، جس کے نتیجے میں 84 افراد ہلاک جبکہ 200 سے زائد شدید زخمی ہوگئے تھے۔

ان حملوں اور واقعات کے باعث لوور کے مشہور اور سب سے بڑے عجائب گھر کا رخ کرنے والے سیاحوں کی تعداد میں بھی مسلسل سامنا دیکھنے میں آرہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں