کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) لندن کے دو زیر حراست رہنماؤں خلاف قائم نفرت انگیز تقاریر میں سہولت فراہم کرنے کے مقدمے میں حتمی چارج شیٹ پیش نہ کرنے پر تفتیشی افسر کو شو کاز نوٹس جاری کردیا۔

خیال رہے کہ ایم کیو ایم لندن کے رہنماؤں 70 سالہ پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف اور امجد اللہ خان کو قمر منصور کے ہمراہ حراست میں لیا گیا تھا ان رہنماؤں پر الزام ہے کہ انھوں نے ایم کیو ایم کے بانی قائد الطاف حسین کی جانب سے جولائی 2016 میں جماعت کے مرکز نائن زیرو پر کی جانے والی تقریر کیلئے سہولت فراہم کی اور اسے سنا تھا، جس میں انھوں نے مبینہ طور پر لوگوں میں مذہبی جذبات اُبھارنے، فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی تھی اور اپنے کارکنوں کو تاجروں سے زبردستی رقم وصول کرنے کیلئے کہا تھا۔

گذشتہ ماہ پولیس نے زیر حراست افراد کے خلاف ابتدائی چارج شیٹ عدالت میں پیش کی تھی اور الطاف حسین، ایم کیو ایم پاکستان کے چیف ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر رہنماؤں کو اشتہاری قرار دیا تھا۔

گذشتہ روز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر سید ذوالقرنین پیش ہوئے تاہم وہ حتمی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے میں ناکام رہے۔

جس پر جج نے تفتیشی افسر کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان جیل میں سڑ رہے ہیں اور وہ تاحال ایک ماہ گزر جانے کے باوجود حتمی رپورٹ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

دوسری جانب ایم کیو ایم لندن کے رہنماؤں کی جانب سے عدالت میں 'بی کلاس' کی درخواست کی گئی تھی جس میں جیل میں بہتر سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ضمانت کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔

عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد بی کلاس کی درخواست پر اپنا فیصلہ 11 فروری تک کیلئے محفوظ کرلیا جبکہ ضمانت کی درخواست پر آئندہ تاریخ پر سماعت کا امکان ہے۔

اس دوران عدالت نے الطاف حسین، ڈاکٹر فاروق ستار، خوش بخت شجاعت اور دیگر درجنوں کی گرفتاری کیلئے ناقابل ضمانت وارنٹ ایک مرتبہ پھر جاری کیے۔

یاد رہے کہ مذکورہ کیس میں کراچی کے میئر وسیم اختر، رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن، رؤف صدیقی اور ایم کیو ایم لندن کے رہنما ساتھی اسحاق نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کررکھی ہے۔

ایم کیو ایم لندن کے دونوں رہنماؤں کو 22 اکتوبر 2016 کو پبلک آرڈر قانون کی بحالی کے تحت دو ماہ کیلئے حراست میں لیا گیا تھا اور انھیں رہائی کے فوری بعد مذکورہ مقدمے میں 20 دسمبر کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کے جاری کردہ بیان کے مطابق ڈاکٹر عارف دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور ان کے دل کے دو آپریشنز ہوچکے ہیں جبکہ ان کے امریکا میں مقیم معالج نے پاکستانی حکام کو اکتوبر میں ایک خط لکھا تھا جس میں ان کو فراہم کی جانے والی طبی سہولیات کی نشاندہی کی گئی تھی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ تاہم انھیں انتظامیہ نے حراست میں رکھا ہوا ہے۔

سفورہ کیس میں فوجی عدالت کا ریکارڈ طلب

انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے سفورہ بس حملہ کیس میں فوجی عدالت کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔

اس مقدمے کو دیگر 14 مقدمات کے ہمراہ گذشتہ سال سماعت کیلئے فوجی عدالت کو بھجوایا گیا تھا، سفورہ بس حملے میں اسماعیلی برادری کے 47 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

گذشتہ سال مئی میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اپنے اعلان میں 5 انتہائی خطرناک دہشت گردوں، طاہر سعید، سعد عزیز، اسد الرحمٰن، محمد اظہر عشرت اور حافظ ناصر احمد کو سفورہ بس حملہ کیس اور سبین محمود کے کیس میں فوجی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کی تصدیق کی تھی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سندھ کے اے ٹی سی رجسٹرار کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو فوجی حکام نے 15 مقدمات کا ریکارڈ فراہم کیا ہے تاہم اس میں فوجی عدالت کی کارروائی کا ریکارڈ موجود نہیں۔

عدالت نے رجسٹرار سے مذکورہ مقدمات کے حوالے سے فوجی عدالت کی کارروائی کے ریکارڈ کی کاپی حاصل کرنے کی ہدایت کی۔

اس کیس میں سزائے موت پانے والے مجرموں نے حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ میں فوجی عدالتوں کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔

استغاثہ کے مطابق مئی 2015 میں سفورہ گوٹھ کے قریب مسلح افراد نے اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 10 خواتین سمیت 47 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ رپورٹ 5 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں