بہاولپور: کراچی سے ساہیوال جاتے ہوئے ٹرین سے 22 ٹن کوئلہ غائب ہونے کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں کوئلہ چوری ہونے کے امکان کو رد کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ شاید کوئلہ دوران سفر ہی ہوا میں کہیں اُڑ گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ بدھ کو کوئلہ جس کی مقدار پہلے 70 ٹن بتائی گئی تھی کراچی سے ساہیوال جاتے ہوئے پراسرار طور پر غائب ہوگیا تھا۔

حکام کو کوئلے کے 'غائب' ہونے کا علم اُس وقت ہوا جب ساہیوال کول پاور پلانٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز نے ریلوے حکام کو ایندھن کی ترسیل میں تاخیر کی شکایت کی۔

امکان ظاہر کیا گیا کہ ٹرین کی مذکورہ بوگی بہاولپور شہر سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر لیاقت پور اور ڈیرہ نواب صاحب کے درمیان کلاب ریلوے اسٹیشن پر 'خالی' ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرین سے غائب ہونے والا کوئلہ اصل میں گیا کہاں؟

یہ کوئلہ کراچی کے پورٹ قاسم سے قادر آباد پاور پلانٹ منتقل کیا جارہا تھا۔

ملتان میں پاکستان ریلویز کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ آفس کے ترجمان اقبال گیلانی نے بتایا کہ انکوائری ٹیم نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ ریلویز کے اعلیٰ حکام کو پیش کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیراعظم نواز شریف کو بھیجی جائے گی۔

اقبال گیلانی کے مطابق ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ چلتی ہوئی ٹرین سے اتنی بڑی مقدار میں کوئلہ چوری کرنا ممکن نہیں کیوں کہ ٹرین 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کررہی تھی۔

ڈان کو لیاقت پور اور دیگر ریلوے اسٹیشنز پر موجود پولیس اور ریلوے حکام سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ٹرین کے عملے نے ریلوے ٹریک پر کالا دھواں اٹھا ہوا دیکھ کر کلاب اسٹیشن پر ٹرین کو صرف 5 منٹ کے لیے روکا تھا۔

مزید پڑھیں: ساہیوال پاور پلانٹ: ٹرین کی بوگی سے 22 ٹن کوئلہ 'غائب'

تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ جن ڈبوں میں کوئلہ لوڈ کیا گیا تھا ان کے دونوں دروازے کھلے ہوئے پائے گئے لہٰذا ٹرین کی تیز رفتار کی وجہ سے اس میں لوڈ کیا گیا کوئلہ دوران سفر اڑتا رہا۔

اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ٹرین کے عملے نے جو اڑتا ہوا کالے دھویں کے بادل دیکھے وہ ٹرین کا کوئلہ ہی تھا تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلوے ٹریک پر کوئلے کا کوئی نشان نہیں پایا گیا۔

ڈبے کے دروازے کھلے چھوڑنے کے باوجود رپورٹ میں کسی بھی عہدے دار پر مبینہ غفلت برتنے کی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی جبکہ ممکن ہے کہ سکھر سے ٹرین میں سوار ہونے والے گارڑ پر غفلت برتنے کی ذمہ داری عائد کی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ چینی حکام کی جانب سے مبینہ طور پر ٹرین سے کوئلہ چوری ہونے کی نشاندہی کیے جانے کے بعد پولیس اور ریلوے حکام نے لیاقت پور سے ڈیرہ نواب صاحب تک ریلوے ٹریک کا گشت کیا تھا تاکہ کوئلے کی چوری کا کوئی ثبوت مل سکے تاہم انہیں ریلوے ٹریک کے اطراف کوئی ثبوت نہیں مل سکا تھا۔


تبصرے (1) بند ہیں

جواد Feb 07, 2017 08:24pm
یہ بھی ممکن ہے کہ کوئلہ لوڈ ہی نہ کیا گیا ہو یا ٹرین فارمیشن کے دوران یارڈ ہی میں چوری کر لیا گیا ہو یا پھر حساب میں گڑبڑ ہو گئ ہو کیونکہ 22ٹن ایک فور ویلر کا وزن شمار ہوتا ہے