گذشتہ ماہ لاپتہ ہونے والے بلاگر احمد وقاص گورایا نے بالآخر گمشدگی پر خاموشی توڑ دی تاہم انہوں نے اپنے اغواکاروں کی نشاندہی کرنے سے گریز کیا۔

یاد رہے کہ احمد وقاص گورایا ان 5 سماجی کارکنان میں سے ایک تھے، جو جنوری کے آغاز میں اچانک لاپتہ ہوگئے تھے۔

جنوری کے اختتام پر 3 دیگر سماجی کارکنان کے ساتھ رہا ہونے والے وقاص گورایا اب نیدرلینڈ منتقل ہوچکے ہیں, جہاں وہ ایک دہائی پہلے بھی گزار چکے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں، حزب اختلاف کے قانون سازوں اور سماجی کارکنوں کے مطابق ان افراد کی بیک وقت اچانک گمشدگی کے پیچھے حکومت کا عمل دخل ہوسکتا تھا, کیونکہ جبری گمشدیوں کی پاکستان میں ایک طویل تاریخ ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے 34 سالہ سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا تھا کہ وہ کبھی واپس نہیں آسکیں گے جبکہ اپنے بیٹے اور اہل خانہ سے کبھی دوبارہ نہیں مل سکیں گے۔

دیگر سماجی کارکنوں کی طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور دیگر طبقوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے وقاص گورایا نے اپنے اغواکاروں اور گمشدگی کے دنوں کے حوالے سے کچھ بھی معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔

تاہم انہوں نے درشت انداز میں غداری کے الزامات کو مسترد کیا جبکہ اس بات پر اصرار کیا کہ وہ حب الوطن ہیں۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد پر گستاخی کے الزامات، اہل خانہ کی مذمت

وقاص گورایا کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کی، کبھی اسلام مخالف کچھ نہیں کہا، انہوں نے صرف پالیسیوں پر تنقید کی کیونکہ وہ بہتر پاکستان دیکھنا چاہتے تھے، ایسا پاکستان جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔

سماجی کارکن کا مزید کہنا تھا کہ انہوں اس بات کا بھی خوف تھا کہ گمشدگی کے بعد انہیں گستاخ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ ہی بات انہیں یورپ لے آئی۔

خیال رہے کہ پاکستان میں اسلام یا مذہب کی گستاخی کے لیے سخت قانون موجود ہے، اور اس کی سزا موت قرار دی گئی ہے جبکہ سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن میزبان بار بار گستاخی کا الزام دھراتے رہے ہیں، اگر الزام ثابت نہ بھی ہو تب بھی پرتشدد اور مشتعل ہجوم کے حملوں کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق 1990 کے بعد دے گستاخی اور توہین مذہب کے الزام پر 65 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں وکلاء، جج، سماجی کارکن اور سیاستدان شامل ہیں۔

وقاص گورایا کے مطابق نیدر لینڈ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر سر اٹھانے والے گستاخی کے الزامات نے انہیں پولیس کی مدد حاصل کرنے پر مجبور کیا۔

سماجی کارکن کے مطابق 'وہ چوکنے ہیں، لوگ انہیں خبردار کرچکے ہیں کہ یہ دنیا کتنی پاگل ہے'۔

گذشتہ دہائی کے دوران پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی ایک طویل تاریخ ہے، یہ گمشدگیاں افغان سرحد اور بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں تک محدود تھیں، جہاں شدت پسند جنگ لڑنے میں مصروف تھے۔

حزب اختلاف کے سیاستدانوں اور دیگر سماجی کارکنان نے جنوری میں ہونے والی گمشدگیوں کو آن لائن تنقید اور اختلاف رائے کو ختم کرنے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا۔

دوسری جانب حکام ان گمشدگیوں سے لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں: سلمان حیدر 'محفوظ اور خیریت' سے ہیں، بھائی

وقاص گورایا کے مطابق سیکڑوں ساتھیوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور پیجز کو غیر فعال کیا، معروف لبرل بلاگ 'روشنی' بھی فیس بک کے ان پیجز میں سے تھا جو ڈیلیٹ ہوئے حالانکہ اس کا منتظم لندن سے تعلق رکھتا تھا۔

دوسری جانب وقاص گورایا کا تین سالہ بیٹا ان کی ہفتوں پر محیط گمشدگی سے صدمے کا شکار رہا۔

وقاص کے مطابق 'تین سال کے بچے کو آپ کیا بتا سکتے ہیں جب وہ اپنی ماں اور دادا دادی کو روتا اور چیختا ہوا دیکھے؟'۔

گورایا کے مطابق دس سال کا عرصہ نیدرلینڈ میں گزارنے کے بعد وہ 2016 کے آخر میں پاکستان پہنچے تھے تاکہ واپس اپنے شہر لاہور لوٹنے کا فیصلہ کرسکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد وہ ڈچ شہریت کے لیے اپلائی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں اپنے پاکستانی پاسپورٹ کھونا پڑے گا۔

سماجی کارکن کے مطابق ان کا ارادہ واپس ملک لوٹنے کا تھا تاہم اب انہوں اپنی پوری زندگی کو تبدیل کرنے کا پلان کرنا پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں