لندن: برطانیہ میں جنسی کاروبار میں ملوث 4 افراد کی برطانوی شہریت منسوخ کرتے ہوئے انھیں پاکستان ڈی پورٹ کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔

امیگریشن ٹریبیونل کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد چاروں پاکستانیوں کو ملک بدر کردیا جائے گا، جنہوں نے برطانوی شہریت حاصل کررکھی تھی۔

شمالی برطانیہ کے شہر روچ ڈیل میں نشہ آور اشیاء اور الکوحل کی مدد سے نوجوان لڑکیوں کو جنسی کاروبار کی طرف راغب کرنے والے 9 افراد کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے بتایا جارہا ہے۔

ملک بدری کا شکار ہونے والے 4 افراد میں رنگ لیڈر شبیر احمد بھی شامل ہے، جسے 2012 میں 22 سال جیل کی سزا سنائی گئی تھی، اس کے علاوہ دیگر 3 افراد میں عادل خان، قاری عبدالرؤف اور عبدالعزیز شامل ہیں۔

ملک بدر کیے گئے رنگ لیڈر شبیر احمد، جن پر ریپ سمیت مزید الزامات ہیں، تاحال حراست میں ہیں جبکہ دیگر تین افراد کو لائسنس پر رہا کیا جاچکا ہے۔

برطانوی شہریت سے ہاتھ دھونے والے دیگر 3 افراد پر سازش، اسمگلنگ اور جنسی ہراساں کیے جانے کے الزامات ہیں، سوائے عبدالعزیز کے، جن پر ریپ کا کوئی الزام نہیں۔

امیگریشن عدالت میں مقدمے کی سماعت کرنے والے جسٹس میک کلوسکی نے ان افراد کے جرائم کو 'چونکادینے والے، وحشیانہ اور کراہت انگیز' قرار دیا۔

جسٹس میک کلوسکی نے فیصلہ سناتے ہوئے انسانی حقوق کے قوانین اور ان افراد کے حقوق میں 'غیر متناسب مداخلت' کے دعوؤں کو مسترد کردیا۔

واضح رہے کہ یہ مقدمہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے اس فیصلے پر قائم کیا گیا تھا جو انہوں نے بطور ہوم سیکریٹری سنایا تھا، تھریسا مے کے فیصلے کے مطابق عوامی فلاح کے لیے ان افراد کی برطانوی شہریت کو ختم کرنا ضروری تھا۔

اس گروہ کا نشانہ بننے والی پانچوں سفید فام لڑکیوں نے 2012 میں ان افراد کے خلاف ثبوت پیش کیے تھے اور ریپ، ہراساں کیے جانے جبکہ مختلف لوگوں کو فروخت کیے جانے کا انکشاف کیا تھا۔

متاثرین نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا تھا کہ کئی دفعہ ان کو اس قدر نشے کی مقدار دی جاتی کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو روک بھی نہیں سکتی تھیں۔

دوسری جانب 22 سے 59 سالہ ملزمان نے اپنے دفاع میں مختلف جواز پیش کیے اور دعویٰ کیا کہ الزامات لگانے والی خواتین سیکس ورکرز ہیں۔

روچ ڈیل کے رکن پارلیمنٹ سائمن ڈین زوک کا کہنا تھا کہ ٹریبیونل کے سامنے پیش کیے گئے چاروں افراد کو جلد از جلد ملک بدر کردیا جانا چاہیئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکی جرائم پیشہ افراد کو ملک بدری سے بچنے کے لیے انسانی حقوق کے قوانین کا استعمال کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جانا چاہیئے۔


یہ خبر 10 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں