ڈان نیوز کے قارئین کے لیے افسانوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جس میں سب سے پہلا افسانہ 'سیلن' ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کے دل کی کیفیت ہے جو یورپ میں اپنی محبت کو چھوڑ کر واپس برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں آ بسا ہے۔ اپنی آراء اور تجاویز سے ہمیں [email protected] پر ضرور آگاہ کیجیے۔

گذشتہ قسط یہاں ملاحظہ کیجیے۔


(دوسری قسط)

سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ دیواروں سے سیلن اتار پھینکوں۔ گھر کے کونے کھدروں میں درزوں کو کھول دوں۔

عرصے سے بند نکاس کو آزاد کر دوں۔ میں یہاں کھل کر سانس لینے آیا ہوں۔

ریو میں یوں ہوتا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں، طوفان باد و باراں کی آمد سے کچھ دیر پہلے فضا میں عجیب سی بوجھل پھسلواں ہو جاتی ہے۔ درختوں کے پتوں سے انتہائی تیز مگر مٹی میں گندھی بھینی خوشبو نکلنے لگتی ہے۔

آسمان پر یکا یک کالے بادل گھر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اندھیری ہر چیز کو غڑاپ سے نگل لے گی۔ دنیا کو اتھل پتھل کر کے رکھ دے گی۔

طوفان سے پہلے خاموشی تباہی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ ابھی تک تو کچھ نہیں ہوا مگر جلد ہی، بہت جلد ہر چیز حرکت میں آ جائے گی۔ بہت کچھ ہو گا۔

المیے کی خوبصورتی یہی ہے کہ نزول سے عین پہلے تک اس کا سرے سے پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہ آن کی آن میں گھیر لیتا ہے۔ ایسے میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو یادگار بن جاتی ہیں۔

یہ انہونیاں ان عظیم لمحات سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں جو اس یاد گار کو جنم دیتی ہیں۔

مثلاً شہوت میں تر بوسے سے قبل کا لمحہ۔ عین وہ ساعت جب ایک دوڑ لگانے والا جیت کی لکیر کو پار کرنے کے بہت قریب ہو۔ یا پھر، ریو میں طوفان سے قبل، کچھ وقت نہایت دلکش ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ بادل برسیں اور چاروں طرف پانی کے ریلے بہتے ہوں، شہر میں اچانک حرکت شروع ہو جاتی ہے۔

لوگ اضطراب سے بد حواس ہو جاتے ہیں۔ پرندوں کے غول ٹوٹ جاتے ہیں اور اکثر ڈار سے بچھڑ کر شور مچانے لگتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پرندوں کے حلق چیر کر نکلنے والا، یہ کیسا دل خراش شور ہوتا ہے؟

کاکروچ تیزی سے کھسکتے، گرتے پڑتے، دوڑتے اور پھرتے، زمین پر رینگتے نظر آتے ہیں۔ بندر پریشانی میں کبھی اس ڈال اور کبھی اس شاخ پر کودنے لگتے ہیں۔ ہر شے پناہ ڈھونڈتی ہے۔ سب چھت تلاشتے ہیں۔ باد و باراں سے عین پہلے ماحول میں رطوبت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ شہر اس کے بوجھ تلے پھڑ پھڑاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

جب ایسا ہو تو پھر ہر زی رو ح جان لیتا ہے کہ جلد، بہت جلد یہ گرم مرطوب، بھاری چپ چپ کرتا موسم ختم ہونے کو ہے۔ اب بس کچھ دیر کی بات ہے۔ شہر جل تھل ہو جائے گا۔ اس دوراں اگر آپ خوش قسمتی سے کسی محفوظ جگہ پر، مضبوط چھت تلے پہنچ گئے تو قدرت کی رعنائی اور بھرپور طاقت کا مظاہرہ کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔

آپ دیکھتے ہیں کہ قدرت آسمانوں کے در کھول کر اپنی بے پایاں قوت کو بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح کھلا چھوڑ دیتی ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر ایک ہی خیال آتا ہے کہ طوفان کی موسلادھار بارش کے سامنے ہم کس قدر ناپائیدار اور فانی ہیں۔ یوں ایک انجانا خوف گھیر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر کے مہینے میں جب چہار سو ٹپ ٹپ برسنے والی بارش گرتی ہے تو عام طور میرا اندر شادمان رہتا ہے۔

ٹھنڈ کی سموئی بارش سے جی بہل جاتا ہے, مگر یہ دسمبر تو نہیں۔

گرمیوں کی حبس کا موسم ہے، طوفان اور باد و باراں بجلی چمکنے اور بادل کڑکنے کا موسم ہے۔ میں اندر گھسا صفائی کر رہا تھا۔ گھر کے ساتھ میرے اندر بھی حبس حد سے بڑھ گیا تو کام کاج چھوڑ کر باہر نکل آیا اور گلیوں میں بے مقصد مٹر گشت شروع کر دی۔

گلیوں میں ارد گرد عمارتیں بھدی ہیں اور پتلی سڑکوں پر گڑھوں کا گماں ہوتا ہے۔ موسم میں اتنی تپش ہے، جیسے دوزخ ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اسی جگہ کی ضرورت تھی، دوزخ میں جلنے کا شوق تھا۔ میں ایسے جہنم میں جانا چاہتا تھا، جس سے کم از کم باہر نکلنے کی تمنا تو پیدا ہو۔

پچھلی بار جب ہم ریو آئے تھے۔ وہ دن یاد کرو، کیبل کار اچانک جھٹکے سے روانہ ہوئی تو تم دہل گئی تھیں۔ میری حالت دیدنی تھی، میں گرم جوش تھا۔ ریو میں شوگرلاف پہاڑ واحد سیاحتی مقام ہے جہاں میں کبھی بھی، کسی بھی وقت جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہوں۔ وجہ یہ کہ ہر دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پہلی بار یہاں آیا ہوں۔

دراصل مجھے پہاڑ کی چوٹی سے، اونچی جگہوں پر کھڑے ہو کر پیروں میں بچھی دنیا کو دیکھنے کا بے حد شوق ہے۔ ارکا کی پہاڑی پر، جب کیبل کار آدھا راستہ طے کر چکتی ہے تو مجھے اپنا آپ کسی حیرت زدہ سیاح کی مانند لگنے لگتا ہے۔ جیسے میں کوئی مسافر ہوں جو برازیل کی کھوج میں نکلا ہے۔ خود کو تصور میں پانچ سو سال پہلے کے زمانے میں خیال کرتا ہوں۔ وہ شخص سمجھتا ہوں جس نے ابھی ابھی گوانا بارا کے ساحلوں پر جہاز لنگرانداز کیا ہے اور اس انوکھی جگہ کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں مبتلا ہے۔

میں اس جنت نظیر پر قدم رکھنے والا مہذب دنیا کا پہلا شخص ہوں جو اس پراچین دھرتی کو دیکھ کر انگلیاں دانتوں تلے دبائے، ہکا بکا کھڑا ہے۔ مجھے دوسروں کی طرح کبھی یہاں کے مقامی انڈینز سے ایک ذرہ برابر حسد محسوس نہیں ہوا۔ وہ تو یہاں بہت پہلے سے تھے۔ پرتگالیوں نے تو اس جگہ کو صرف دریافت کیا تھا۔ ریڈ انڈینز تو اس جگہ کا قدرتی حصہ تھے، اس نا مہربان اور رسوا کن مگر انتہائی خوبصورت ماحول کا جز و لا ینفک تھے۔

ایک ہفتے کی دن رات کڑی محنت کے بعد گھر کی صفائی کا نتیجہ یہ ہے کہ اب دیواروں پر کم از کم سیلن نہیں ہے۔ سطح سے اُلی تو ختم ہو گئی ہے مگر بدبو دار ابساہٹ ابھی باقی ہے۔ جب ذہنی اُلجھن اور اضطراب آن گھیرے تو حالت غیر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں صرف بے چینی پر اکتفا نہیں ہوتا بلکہ ساتھ ہی شکوک اور مالیخولیا کا بھی دورہ پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں، گھر سے نکل جانے میں عافیت ہے۔

مقصد، سکون کی تلاش میں نکل پڑتا ہوں۔ سات برس پہلے تک جب ایسی حالت طاری ہوتی، میں ہمیشہ قریب ہی واقع پبلک سوئمنگ پول کو جائے پناہ بنا لیتا تھا۔ گرمی کے موسم میں، آج پھر طوفان کی آمد آمد ہے۔ میں نے سیدھا جا کر پول میں ڈبکی لگا دی۔ بچے آسمان کے گرجنے پر، مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں۔ کیونکہ بجلی پہلے چمکتی ہے اور پھر کچھ لمحوں کے لیے آسمان کو اس طرح روشن کر دیتی ہے جیسے اندھیر نہیں یہ روشن دن ہو۔ ریو کے باسی زندہ دل لوگ ہیں۔

ان کا مسرت کے بارے میں خیال یہ ہے کہ پسینہ پٹھوں کو چپڑ دیتا ہے۔ یہ پسینے کی مہربانی ہے کہ ہم اتنی آسانی سے جسم کو متحرک رکھتے ہیں۔ جسم کی حرکت سے یاد آیا، تم کتنی عجیب تھیں۔ پچھلی دفعہ میرے ساتھ ریو آئیں تو بچوں کی طرح ضد کرتی رہیں کہ بالضرور ہی مشہور فانک رقص دیکھنے جاؤ گی۔ فانک کے رقص میں مرد اور عورتیں، دوست اور شہر بھر کے غیر اجنبی اکٹھے ہو کر زمین پر لہکتی ہوئی لکیروں کی شکل میں ناچتے ہیں۔

گھنٹوں جسموں کو لچکاتے رہتے ہیں۔ ٹانگیں بل کھاتی، ایک دوسروں کی رانوں میں گھسی، الجھتی رہتی ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب اپنا اصل ظاہر کرتے ہیں۔ یوں ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے پیدا ہی اس لیے کیے گئے ہیں کہ اس طرح گھل مل کر ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لیں۔ دیکھو تو لوگوں کو اس دھما چوکڑی میں دوسرے جسموں سے ٹپکتے ہوئے پسینے پر کبھی نالاں نہیں دیکھا۔ کسی کو قطعاً کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

ریو کے باسیوں کے لیے پسینہ سوائے بہتے ہوئے عام سیال سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ تب بھی، میں تم سے یہی کہا کرتا تھا کہ خدارا، مجھ سے توقع نہ رکھو کہ میں رنگ رلیوں کے میلے کو پسند کروں گا۔ میں آج بھی تم سے اپنے خیال میں یہی گزارش کرتا ہوں، مجھے زندگی میں فانک رقص جیسے میلے سے دور ہی رکھتیں تو ہم دونوں کے لیے بہتر ہوتا۔

(جاری ہے)

تبصرے (0) بند ہیں