ڈان نیوز کے قارئین کے لیے افسانوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جس میں سب سے پہلا افسانہ 'سیلن' ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کے دل کی کیفیت ہے جو یورپ میں اپنی محبت کو چھوڑ کر واپس برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں آ بسا ہے۔ اپنی آراء اور تجاویز سے ہمیں [email protected] پر ضرور آگاہ کیجیے۔

گذشتہ اقساط یہاں ملاحظہ کیجیے۔


اس سے پہلے کہ ان پھولوں کو رسم کے مطابق پانی میں بہا دوں، سمندر کی جانب منہ موڑ کر کے بیٹھ گیا۔ میں نے آج سے پہلے کبھی ساحل پر اتنا رش نہیں دیکھا۔

میرے گرد ہزاروں لوگ جمع ہیں اور ان کے بیچ کس قدر تنہا ہوں۔ اس سے قبل کبھی اس طرح تنہائی کا شدید احساس نہیں ہوا۔ لیکن، خلوت پریشان نہیں کر رہی۔ میرا خیال ہے کہ یہ خوبصورت ہے مگر دل چاہتا ہے کہ اے کاش، یہ لوگ صرف ایک لمحے کے لیے چپ کر جائیں۔

اتنے خاموش ہو جائیں کہ گہرے سمندر کے ساحل پر سوائے سانسوں کے شور، کچھ سنائی نہ دے۔ آتی جاتی لہروں میں لوگوں سانسوں کا زور ڈوب جائے اور آخر میں صرف سمندر کا شور باقی رہ جائے۔ ظاہر ہے، ایسا ہونا ناممکن ہے۔

میں اٹھ کھڑا ہوا اور آگے ہی آگے گہرے سمندر کی طرف چل پڑا۔ میں نے ہاتھ میں تھامے پھولوں کو ایک کے بعد دوسرا سمندر کے ترش پانی کے حوالے کر دیا۔ پہلے تین پھول مر جانے والوں کے نام، تا کہ وہ جان لیں کہ ہمیشہ میرے ساتھ، ہمراہ ہوتے ہیں۔

آخری پھول، تم سے منسوب ہے۔

میں نے دل پر پتھر رکھ کر اسے بھی سمندر میں بہا دیا۔ آدھی رات ڈھل چکی ہے۔ لوگ جتھے بنا کر ایک ہی جگہ پر جمع ہو رہے ہیں۔ شیمپین کے جام چل رہے ہیں۔ ہزاروں مرد اور عورتیں ہاتھوں میں ہاتھ تھام کر نئے سال کو خوش آمدید کہنے کی تیاریوں میں تھے۔ میں نے بھی اجنبیوں کے ایک گول چکر میں جگہ بنا لی۔ اس جتھے میں کبھی نہ جاتا مگر انہوں نے مجھے دور سمندر کے پاس اکیلا دیکھ کر بلا بھیجا تو مجھے آنا ہی پڑا۔ ہم نے مل کر الٹی گنتی گنی اور اچانک آسمان میں آتش بازی کی پھل جڑیاں پھوٹنے لگیں۔

ابھی آتش بازی کی چنگاریاں ٹھنڈی بھی نہیں پڑی تھیں کہ آسمان میں لوگوں کی دلچسپی ختم ہوگئی۔ خود آسمان کا شوق ابھی جوان ہو رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں کالے بادل برس پڑے اور بارش کی بوندیں شراب، پسینے اور سمندر کی نمی میں گھل مل گئیں۔

میں اس بات کو کبھی سمجھ نہیں پاؤں گا۔ آخر کیسے، یہ لوگ نئے سال کی رات کسی شبہ کے بغیر، ایک دوسرے کو یقین دلا دیتے ہیں کہ آنے والا سال، ان کی زندگیوں کا بہترین سال ثابت ہو گا؟

1770ء میں مارکس لوارڈو نے طویل مشاہدے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ریو کے باسی بے حد کاہل ہیں۔ یہاں کی ہوا لوگوں کے جوش و خروش، پھرتی کو سونٹا لگا کر چپکے چپکے پی جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے اتنی آہستگی سے بات کرتے ہیں کہ اچھی بھلی گفتگو پر سرگوشیوں کا گماں ہوتا ہے۔ ریو کے باسی لفظوں کے استعمال میں بھی سخت کفایت شعاری سے کام لیتے ہیں۔

بول چال میں اتنے کنجوس ہیں کہ ایک دوسرے کو سلام تک نہیں کرتے۔ بس میں داخل ہوں تو آگے نکلنے کی دھن میں، دھکم پیل پر ہر گز شرمندہ نہیں ہوتے۔ کسی کو دو لوگوں کے بیچ سے گزرنا پڑے تو اجازت طلب کیے بغیر بے دھڑک گھس جاتے ہیں۔ راہ چلتے ٹکرا جائیں تو معافی مانگنے کا رواج نہیں ہے۔ شکریہ ادا کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے تمیز روا رکھتے ہیں۔

مختصر کہوں تو ادب آداب کی ریت روا نہیں ہے۔ میں کافی عرصے بعد ریو آیا تو ایسے ملک سے واپس آ رہا تھا جہاں رشتے بھی لفظوں پر استوار کیے جاتے ہیں۔ مجھے گماں ہوا کہ شاید ریو کے لوگ یورپ کے مقابلے میں خاصے بد مزاج ہیں یا کہو، اب ہو چکے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں تھا۔

پتہ چلا کہ نہیں، ریو کے لوگ لفظوں سے نہیں بلکہ جسموں سے باتیں کرتے ہیں۔ راہ چلتے ان کے جسم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے ہیں، آڑھے ترچھے ہو کر گزرتے ہیں اور رش میں ایک دوسرے کو اس طرح چھو کر گزرتے ہیں کہ جیسے باتیں کرتے ہوں۔

میرے شہر کے لوگ تو لفظوں کے بجائے کاہل اور خواب آلود مگر لچک دار جسموں کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ یونہی ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اجازت طلب کرتے ہیں اور غلطی پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے تو جسم بولتے ہیں۔ یہاں سب لمس کی بولی بولتے ہیں۔ ملاقات ہو تو صرف رسماً مصافحہ پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ گلے لگا کر استقبال کرتے ہیں۔

کوئی اس جسمانی زبان کا برا نہیں مناتا، پسینے میں تر ہوں تو کوئی برا نہیں سمجھتا۔ مجھے احساس ہوا کہ ان دونوں جگہوں میں یہی تو فرق ہے۔ مجھے یہ پتہ چلا کہ الفاظ ہمیشہ سچے نہیں ہوتے مگر جسم بہرحال کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔

اگلی صبح میں سویرے جاگ گیا۔ بستر پر دوسری جانب صرف خالی پن تھا۔ میرے لیے یہ انتہائی مشکل انتخاب بن چکا تھا۔

میں سانس لینے کو ہوا اور تھامنے کو ایک ہاتھ کے بیچ پھنس کر رہ گیا تھا۔

ریو کے باسیوں کے لیے خوشی کا ایک تصور یہ ہے کہ اداسی جسم کے مساموں سے سیپ کر نکل جاتی ہے۔ لفظوں کے کھیل میں مالیخولیا کا تعلق افسردگی اور ملال سے جڑتا ہے۔ اداسی یعنی سودا طبیعت میں بد مزاجی اور خلط کی وہ کیفیت ہے جب جسم میں سیاہ نمی کی بہتات ہو جاتی ہے۔ یہ بقراط کی دریافت کردہ باقی تین رطوبتوں یعنی خون، بلغم اور کرودھ سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔

کہا جاتا تھا کہ اداسی کا تعلق کسی بھی شے سے نہیں ہے، یہ سراسر خیالی چیز ہے۔ ریو کے لوگ اداسی کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ وہ دکھ اور درد کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں جانتے۔ کیا ہوا، جی اداس ہے؟ سمندر میں ڈبکیاں لگاؤ۔ غم ہے؟ ٹھنڈی بئیر کی بوتل اڑاؤ۔ ارے، رنج ہے؟ لاپا میں سامبا ڈانس کرو۔

ان کے نزدیک اداسی جیسی خیالی چیز کا یہی حل ہے کہ اسے موسیقی کے حوالے کر دو۔ لوگوں سے گھل مل جاؤ۔ غم کا علاج یہ ہے کہ اسے خوشی سے مار دو۔ یہی وجہ ہے کہ میں ریو سے چلا گیا تھا۔ اتنا عرصہ، کئی برس تک اس جگہ سے دور رہا۔

خوشی اور خوش رہنے کی پابندی میں تضاد سے بڑی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ریو میں ہر وقت خوش رہنے کی ضرورت کے ساتھ زندہ رہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ پیرس، لندن یا برلن کی فضا میں چھائی بے۔

کیفی یا سرمئی آسمان کے ساتھ گزارہ کرنا ممکن ہے۔ کسی بھی چیز کی زیادتی بالآخر اسے فرسودہ بنا دیتی ہے۔ ایسی چیز عام ہو کر بالکل بے وقعت ہو جاتی ہے۔ میرے ساتھ بعینہ یہی ہوا۔ ہر وقت خوش رہنے کی دھن اتنی بڑھی کہ بالآخر خوش رہنے کے قابل ہی نہ رہا۔

لیکن پھر مسئلہ یہ ہے کہ ریو میں کوئی کیسے افسردہ رہے، اداس ہو کر کیونکر بسر کرے؟ دل شکستوں کے سر جھکے ہوتے ہیں۔ یہاں قضیہ یہ ہے کہ سر جھکا کر کہیں بھی بیٹھ جائیں تو شہر میں دائیں طرف عظیم الشان، بلند پہاڑیاں جبکہ بائیں جان ہرے بھرے وسیع میدان کا دلکش نظارہ پھیلا رہتا ہے۔ اس منظر میں اپنا اداس جی، گویا بے لباس نظر آتا ہے۔

سامنے دیکھیں تو، تا حد نگاہ وسیع سمندر پھیلا ہے۔ ایسے میں، جتنی بھی کوشش کر لیں داہنی آنکھ خود سری سے دور تک پھیلے قدرت کے دلکش مناظر کو دیکھنا چاہتی ہے۔

جبکہ بائیں نظر سبزے کو ٹٹولتی رہتی ہے۔ ایسے میں جب اداسی چھائی ہو، یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر جھکا سر اٹھ گیا تو سامنے سمندر کے اس پار افق پر نظر پڑتے ہی مسکرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

یوں اس شہر میں کوئی بھی تا دیر اداس نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ شہر میں وہ جگہ تلاشیں جہاں کونے کھدرے میں بھی اداسی بھری ہو۔ کوئی ایسا مقام جہاں گھنٹوں سر جھکائے بیٹھے رہیں۔ یہ ڈر نہ ہو کہ سر اٹھائیں گے تو ارد گرد دل نشیں مناظر ساری بے آسی چوس لیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس شہر میں ایسی جگہیں کہاں پائی جاتی ہیں؟

کہیں بھی تو نہیں ہیں۔

ٹیلی فون لائن کے دوسری طرف ایک لرزتی ہوئی ڈانوا ڈول آواز ہکلاتے ہوئے مجھ سے پوچھتی ہے، 'کیا تم مجھے ایک شہر کے لیے چھوڑ رہے ہو؟'

میں کیا کروں؟ میں نے کبھی سوکھے پن میں زندہ رہنا نہیں سیکھا۔ میں بنجر زمین کا باسی نہیں ہوں۔ وہاں تو روز بروز جلد کھردری ہوتی جا رہی تھی۔ میں وقت سے پہلے بوڑھا ہو رہا تھا۔ لیکن اب ریو میں آہستہ آہستہ دوبارہ زندہ ہو رہا ہوں۔ اب میرا جسم دوبارہ سے جڑ رہا ہے۔ میں جی رہا ہوں۔ پسینے کے موتیوں جیسے قطرے گویا ٹانکوں کا کام کر رہے ہیں۔ ادھڑی ہوئی روح کو پھر سے سی رہے ہیں۔ ایسے میں، مجھے لگتا ہے کہ میں بچ جاؤں گا۔

ریو کے باسیوں کے پاس خوشی کے بارے میں ایک انوکھا خیال یہ ہے کہ عورتیں بکنی اور مرد جانگیے پہن کر ساحل سمندر پر مٹر گشت کیا کریں، پانی میں لوٹنیاں لگائیں اور خوب اودھم مچائیں۔

اسی لیے زیادہ تر لوگ یہ بیہودہ لباس پہن کر گلی کوچوں میں بے پرواہ پھرتے رہتے ہیں۔ ریو میں راستوں پر آپ کو دو طرح کے لوگ ملیں گے۔ ایک طرف خوشی کے یہ متمنی ہیں جنہوں نے بکنی اور جانگیے پہن رکھے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف سوٹ بوٹ میں ملبوس مرد اور عورتیں بکنی کے نیچے اونچی ہیل والی جوتیاں پہن کر پھرتی رہتی ہیں۔

ٹیلی فون پر میں تقریباً منت کرتا ہوں، 'خدارا، کچھ دیر کے لیے رک جاؤ۔ میرا انتظار کرو!'

جب غیر یقینی کی کیفیت طاری ہو تو عام طور پر میں اٹھ کر کھڑکی کے پاس دیر تک کھڑا ہو جاتا ہوں۔ ابھی کا حال یہ ہے کہ کورکا واڈو کے پہاڑ پر سفید دھند کی دبیز تہہ چھائی ہے۔ کھڑکی میں اس کے قدم اور چوٹی دو حصوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

دھند میں نجات دہندہ مسیحا کا مجسمہ جیسے تیر رہا ہے۔ میں اس مجسمے کے ساتھ اکثر بات کرتا ہوں۔ مجھے اس سے گھنٹوں گفتگو کی عادت ہے۔ اس گھر میں کتنی ہی تنہا، تاریک راتیں ایسی گزری ہیں جن میں سوائے اس مسیحا کے میرا کوئی دوست نہیں تھا۔

یورپ میں میرے اندرونی اعضاء سوکھ رہے تھے، لاغر ہو کر تقریباً ناکارہ ہو چکے تھے۔ اب یہاں آہستہ آہستہ نم ہوا کی وجہ سے یہ دوبارہ جی رہے ہیں۔ ان میں زندگی دوڑنے لگی ہے۔ میں روز فلمینگو پارک میں کئی چکر کاٹتا ہوں اور اکثر اس بے مقصد مٹر گشت کے نتیجے میں خوشی کا بے پناہ احساس طاری ہو جاتا ہے۔

میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر کافی دیر تک سکوت جاری رہے تو بات کرنے، کوئی بھی بات کرنے کی ضرورت کو لازمی مت سمجھو۔

نہ جانے کیوں، اس بات پر ٹیلی فون کی دوسری جانب مجھے تم پر اپنی خود غرضی کا بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ تمہارے لیے وقت ٹکی ہوئی کوئی چیز ہے۔ یہ ایک ایسا پتھر کا مجسمہ ہے جو ساکت ہے، ہر لحظہ موجود ہے۔

تم نے اسے یوں ٹھہرا رکھا ہے کہ جیسے یہ تمہارا نہیں بلکہ کسی اور کی چیز ہے۔ کسی ایسے کی جو اس میں ہلچل پیدا کرے، تمہیں ہر وقت یہی انتظار رہتا ہے۔

ساحل سمندر ہمیشہ سے میری جائے پناہ رہا ہے۔ سمندر کی مثال میرے دوسرے گھر کی سی ہے۔ میں ایک گھر سے نکل کر دوسرے میں جا پہنچتا ہوں۔ جب میں بہت چھوٹا ہوا کرتا تھا، سمندر میں تیرنا بہت پسند تھا۔ میں اس میں ڈبکیاں لگاتا اور پانی میں سانس روکے بیٹھا رہتا۔ یہ اسی مشق کا نتیجہ ہے کہ میں بیرونی دنیا کو بھول گیا۔

(جاری ہے۔)

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں