مارچ 2005 میں ہونے والے اسٹاک مارکیٹ کریش کا جائزہ لینے کے لیے آنے والی امریکی فرانزک تحقیقاتی ٹیم 'بدلہ' کے شئیر فنانسنگ نظام کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی اور اسے سمجھنے میں انھیں 2 ماہ کا عرصہ لگ گیا۔

بدلہ جسے کیری-اوور ٹرانزیکشن (سی او ٹی) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسٹاک مارکیٹ کا ایک منفرد نظام ہے جو صرف برصغیر میں پایا جاتا ہے۔

اس نظام نے 2011 سے اب تک اسٹاک مارکیٹ کے زیادہ تر بحرانوں میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہی نظام 2008 میں مارکیٹ کریش کا بھی باعث بنا تھا، جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو 13 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا تھا، جس کے بعد 'بدلہ' پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

تاہم پابندی کے باوجود 'بدلہ' شیئر فنانسنگ نظام ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا اور ایک نئی شکل میں ’اِن ہاؤس بدلہ‘ کے نام سے کارگر ہے، اس نظام کے حوالے سے ایک سرمایہ کار کہنا ہے کہ 'اِن ہاؤس بدلہ نئی بوتل میں پرانی شراب ہی ہے'۔

بدلہ نظام کا استعمال کرنے والے سرمایہ کار شدید رسک پر ہیں، اگر بروکرز کو مالی پریشانی کا سامنا ہوا تو وہ سرمایہ کار جو ’بدلہ‘ کے ذریعے اپنے معاملات دیکھ رہے ہیں اور نقد رقوم کی شکل میں لین دین کررہے ہیں، اپنی تمام سرمایہ کاری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

مزید پڑھیں:اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کیوں کرنی چاہیے؟

اس سے قبل بھارت نے بھی ’بدلہ‘ پر پابندی لگا دی تھی، جو کہ ممبئی شئیر بازار میں مقبول تھا۔

سیکیورٹیز اورایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے سربراہان کو بروکرز کے رد عمل سے لڑتے ہوئے 2008 کے مارکیٹ کریش کے بعد مارجن فنانسنگ کے نظام کو لاگو کرنے میں کافی وقت لگا، جو دنیا بھر میں زیادہ تر اسٹاک مارکیٹس میں استعمال ہونے والا نظام ہے۔

گزشتہ ہفتے ایس ای سی پی نے ’اِن ہاؤس بدلہ‘ کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت انتظامات کیے اور 27 مشتبہ بروکرز کو رواں سال جنوری میں شو کاز نوٹسز بھی جاری کیے گئے۔

سیکیورٹیز اورایکسچینج کمیشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ بدلہ نظام کی ابھی تک استعمال کی وجہ مارجن ٹریڈنگ اور فنانس ٹریڈنگ کا پہلے درجے کے اسٹاک تک محدود ہو جانا ہے، جبکہ دوسرے درجے کے اسٹاکس، بینکنگ سیکٹر کی جانب سے مالی مدد حاصل کرنے کے بھی اہل نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: معیشت مستحکم مگر ماضی کے حالات سرمایہ کاری میں رکاوٹ

اس فنانسنگ گیپ کو کم کرنے کے لیے ایس ای سی پی نے سیکورٹیز مارکیٹس ڈویژن کے کمشنر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو جلد ہی اپنی رپورٹ جمع کروائی گی۔

زیادہ تر سرمایہ کاروں نے رواں برس مئی میں پاکستان کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ میں شمولیت پر نظریں مرکوز کر رکھی ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس طرح بڑے غیر ملکی فنڈز کے لیے پاکستانی مارکیٹ کی راہیں ہموار ہوں گی۔

تاہم ریگولیٹرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس غیر قانونی ’اِن ہاؤس بدلہ‘ کو روکا نہ گیا اور اس پر توجہ نہ دی گئی تو پاکستان کی کیپٹل مارکٹ بمشکل ہی اپنی خوبصورت تصویر پیش کر پائے گی۔

یہ خبر 13 مارچ 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Mar 13, 2017 06:28pm
السلام علیکم: کیا ہمیں کوئی یہ بتانے کی کوشش کریگا کہ کہیں یہ بدلہ کا سسٹم ٹیکس سے بچنے کے لیے تو نہیں اور اگر ہے تو ٹیکس چوروں کے 13 ارب ڈالر ڈوبیں یا 100 ارب ڈالر۔ کسی کو پروا نہیں۔ تاہم اگر اس میں بڑے مگرمچھ ملوث ہیں تو ان پر ہاتھ ڈالا جائے اور وائٹ کالر کرائم میں ملوث ملزمان کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے۔ خیرخواہ