26 برس کے طویل وقفے کے بعد چھٹی مردم شماری اور خانہ شماری کا آغاز آج یعنی 15 مارچ 2017 کو ہو چکا ہے۔ آئین کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صوبائی نمائندگی، وفاقی اکائیوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم، وفاقی ملازمتوں میں کوٹے کی تقسیم اور ملک میں منصوبہ بندی اور تحقیق، مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

مردم شماری کا مقصد محض ملک کے شہریوں کو شمار کرنا نہیں ہے بلکہ مردم شماری شہریوں کی بدلتی ضروریات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ سب سے ضروری یہ کہ مردم شماری کے نتائج کا مقصد صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانا ہے، اس طرح مردم شماری وفاق کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

مگر حیرت ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی وقت پر مردم شماری کروانے میں خاص دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیتا۔ مردم شماری کلیدی طور پر جھوٹے احتجاجی مظاہروں کی مدد سے تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور حتیٰ کہ اگر مردم شماری کا وقت بھی مقرر کر دیا جائے تو بھی یا تو آغاز سے قبل ہی یا پھر اس کے ابتدائی مراحل یا خانہ شماری کے دوران سرد خانے کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

گزشتہ 25 برسوں کے دوران، 1991، 1993 اور 2011 میں خانہ شماری مکمل ہونے کے بعد مردم شماری کو سردخانے کی نذر کر دیا گیا — وقت سے پہلے ختم کی جانے والی ایسی ہر مردم شماری سے ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

شکوک و شبہات کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بار ہونے والی مردم شماری کی ذمہ دار گورننگ کونسل کے تمام ممبران اور ادارہ برائے شماریات پاکستان کے فعال ممبران کا تعلق صرف ایک صوبے، صوبہ پنجاب سے ہے۔

محض 20 کروڑ لوگوں کو شمار کرنے کے لیے تقریباً 20 ارب روپے کی لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ مردم شماری بے حد مہنگی، اور چوں کہ اس کے ذریعے شہریوں سے صرف 13 سوالوں کے جوابات حاصل کیے جائیں گے، اس لیے تکنیکی اعتبار سے ناکافی محسوس ہوتی ہے۔

اس کے مقابلے میں ہندوستانی مردم شماری اور خانہ شماری 2011 کی لاگت ہندوستانی 22 ارب روپے آئی جبکہ اس دوران ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی سے 29 سوالات کے جوابات حاصل کیے گئے۔ استحصال کے شکار طبقات، جنہیں ڈر ہے کہ مردم شماری 2017 کے نتیجے میں وہ مزید استحصال کا شکار ہو جائیں گے، موجودہ مردم شماری ان کے خدشات کو مکمل طور پر دور نہیں کر پائی ہے۔

بلوچستان میں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی، صوبے میں جاری بدترین در اندازی اور اس کے انسداد، اور اس کے ساتھ جنگجو گروہوں کی آزادانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد صوبے سے کراچی اور سندھ کے دیگر حصوں میں نقل مکانی کر چکی ہے۔

بلوچ دانشور طبقہ واضح طور پر اس مؤقف پر ثابت نظر آتا ہے کہ آئندہ مردم شماری کے نتیجے میں آبائی باشندوں کا اپنے ہی سرزمین پر سیاسی اور اقتصادی اثر مزید گھٹ جائے گا۔ موجودہ و سابقہ وزرائے اعلیٰ اور بلوچ سیاسی قیادت مردم شماری اور گھر شماری کی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہیں۔

سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان دونوں ہی آج سے شروع ہونے والی مردم شماری سے کافی حد تک پریشان دکھائی دیتی ہیں، جبکہ دونوں جماعتیں اس مؤقف پر ثابت دکھائی دیتی ہیں کہ سندھ میں شاید درست مردم شماری نہ ہو پائے، جبکہ دونوں جماعتیں صوبے میں دیہی شہری تقسیم کی وجہ سے ایک دوسرے پر شکوک شبہات رکھتی ہیں۔

وزیر اعلٰی سندھ اور ان کی کابینہ کے اراکین نے کئی دیگر مسائل کے علاوہ اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ کئی سندھی شاید اس لیے شمار ہونے سے رہ جائیں، کہ ان کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نہیں ہیں۔

وزیر اعلٰی اور ان کی کابینہ نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز ہوں یا نہ ہوں، مردم شماری کے دوران ہر فرد کو لازمی طور پر شمار کرنا لازمی ہے، جبکہ مردم شماری کو لے کر ایم کیو ایم کے خدشات، ’کوٹہ نظام’ کے خلاف اپنے دیرینہ شکوے کی وجہ سے کافی زیادہ پیچیدہ ہیں۔ ایم کیو ایم کے نزدیک کوٹہ نظام بالخصوص ان کی شہری سیاسی جڑوں کو ہدف بناتا ہے۔

1973 میں قائم ہونے والا صوبائی کوٹہ نظام، ملازمتوں کی تقسیم اور کالج و یونیورسٹیوں میں داخلے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس نظام کو بظاہر حکومت اور اعلٰی تعلیم میں دیہی آبادی کو ایک محدود نمائندگی دینے کے لیے اختیار کیا گیا تھا، 2013 میں اس نظام کے 40 سال مکمل ہونے کے بعد اس میں مزید 20 سالوں تک توسیع کر دی گئی۔

مگر ایم کیو ایم پاکستان، ڈاکٹر فاروق ستار اور 12 دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ فروغ نسیم کی دائر کردہ ایک پٹیشن کے مطابق 1998 کی مردم شماری کے دوران سندھ میں مردم شماری بلاکس کی تعداد کا تناسب 52:48 (11ہزار 54 دیہی اور 10 ہزار 65 شہری مردم شماری بلاکس) تھا۔ درخواست گزاروں کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں دیہات سے شہروں کی جانب بڑی تعداد میں نقل مکانی کے باوجود 2017 کی مردم شماری میں شہری اور دیہی آبادی کے بلاکس کا تناسب 55:45 رکھا گیا ہے، یعنی دیہی سندھ کی جانب زیادہ جھکاؤ ہے جو کہ 'جعل سازی' کے ذریعے شہری آبادی کو کم گننے کی کوشش ہے۔

مذکورہ پٹیشن میں حقائق کی ایک غلطی ہے۔ پٹیشن کے پیراگراف 14 سی میں دعویٰ ہے کہ 38 ہزار 876، جو کہ سندھ کے لیے مختص مردم شماری بلاکس کی مجموعی تعداد ہے، میں سے 21 ہزار 381 کو دیہی قرار دیا گیا ہے اور صرف 17 ہزار 496 کو شہری۔ مگر، حقیقی طور پر دیہی کی تعداد 17 ہزار 496 اور 21 ہزار 381 تعداد شہری مردم شماری بلاکس پر مشتمل ہے۔

موجودہ مردم شماری، سپریم کورٹ کی جانب سے وفاقی حکومت کو مردم شماری کروانے کی اپنی آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے کے حوالے سے حکم نامے کے لیے اطمینان بخش ہو۔ مگر بغیر کسی بہتر منصوبہ بندی کے ایسی کسی مشق کا نتیجہ صرف شور شرابے کی صورت میں ہی نکلے گا جو کہ لوگوں کو اپنے سماجی و سیاسی اور اقتصادی مفادات کو لاحق خطروں سے آگاہی کے لیے کافی ہے، مگر سیاسی مباحثے کی کمی اور عدم اعتمادی کی بڑھتی فضا وفاق کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔

یہ تجزیہ 15 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں