گوادر: پی این ایس اکرم کے کمانڈنگ افسر کمانڈر شاہد احمد کا کہنا ہے کہ گوادر بندر گاہ، اس کے اطراف اور پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے بھرپور تحفظ کے بغیر اس کے فوائد اور اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

گوادر میں ایک پریس بریفنگ کے دوران کمانڈنگ افسر کمانڈر شاہد احمد نے کہا کہ گوادر بندرگاہ پاکستان کے لیے بے انتہا اہمیت کی حامل ہے اور سی پیک کے لیے ایک اہم جز ہے۔

پی این ایس اکرم کو 1983 میں قائم کیا گیا تھا، اس اسٹیشن کو پاک بحریہ کی آنکھ اور کان سمجھا جاتا ہے، جس کا کام نہ صرف گوادر بندرگاہ کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا ہے بلکہ بحیرہ عرب کے شمالی حصے کی نگرانی بھی اسی کی ذمہ داری ہے، اس کے ساتھ ساتھ گوادر بندرگاہ کی حفاظت کے لیے پی این ایس صدیق بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں: سی پیک کے تحت گوادر پورٹ سے تجارتی سرگرمیوں کا آغاز

کمانڈر شاہد احمد نے مزید بتایا کہ گوادر کی بندرگاہ بشمول چینی باشندوں کی حفاظت، کوہ باطل، فش ہاربر اور پورے جزیرے نما حصہ کی حفاظت کی ذمہ داری نیوی کو دی گئی اور اس مقصد کے حصول کے لیے 13 دسمبر 2013 کو ٹاسک فورس 88 کے نام سے ایک فورس تیار کی گئی۔

ٹاسک فورس 88 کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ فورس گوادر کے ساحل سے بیسول اور پاکستان کی ساحلی پٹی سے چھ ناٹیکل میل سمندر کی جانب اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتی ہے۔

فش ہاربر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ماہی گیری زیادہ تر گوادر، جیوانی اور پسنی کی ساحلی پٹی پر کی جاتی ہے، جس میں اکثر ماہی گیر کشتیاں استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تقریبا 700 رجسٹر اور 1200 غیر رجسٹر کشتیاں ان علاقوں میں کام کر رہی ہیں۔

کمانڈر شاہد احمد نے خدشہ ظاہر کیا کہ غیر رجسٹر کشتیاں اسمگلنگ اور غیر قانونی آمد و رفت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں ان کشتیوں کے استعمال کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ان کشتیوں کی رجسٹریشن کی ذمہ داری پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کی نہیں بلکہ بلوچستان کے محکمہ فشریز کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوادر پورٹ چین کے حوالے، انڈیا کو تشویش

نیوی کے اس اسٹیشن کے حوالے سے ان کا بتانا تھا کہ اس سلسلے میں ایک غیر معمولی دفاعی نظام پر عمل کیا جارہا ہے اور پی این ایس اکرم سے ریڈار اور سیکٹرز کی مدد سے نگرانی کو برقرار رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ نگرانی کے دوران زمین اور سمندر میں سیکیورٹی پر مامور عملے میں متواتر فعال رابطہ برقرار رہتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نگرانی کے لیے ہمارے پاس پیٹرولنگ کشتیاں ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ کے جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی اس میں حصہ لیتے ہیں۔


یہ خبر 15 مارچ 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں