جب میں آٹھ برس کی تھی تب میں نے ایک تین سالہ بچے کے بارے میں سنا جو پانی کی ٹنکی میں گر کر ڈوب گیا تھا۔ واقعے سے ہمارے محلے کی مائیں غم سے نڈھال تھیں۔ میری والدہ نے بھی مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو ہر طرح سے احتیاط برتنے کو کہا۔

یہی وہ پہلا موقعہ تھا جب میں نے خودکشی کرنے پر غور کیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ خودکشی کس طرح کرنی ہے، مگر اس واقعے کے بعد میں یہ ضرور جان گئی تھی کہ پانی سے بھری ٹنکی میں کود جانے سے میں اپنی زندگی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتی ہوں اور سب لوگ اسے ایک حادثہ تصور کریں گے۔

مجھے اس کے علاوہ اور کوئی چیز فرحت بخش محسوس نہ ہوئی۔ یوں میرا جسم اس ذہنی اور جسمانی کرب کے ساتھ ڈوب جائے گا جس کا سامنا مجھے ایک عرصے سے تھا مگر کبھی بھی اس کی وضاحت نہ کر سکی تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے اس اقدام سے میں اپنی تمام تکالیف اور کرب کو ختم کرنے کی اپنے اندر طاقت رکھتی ہوں۔

مگر میں نے ایسا کوئی قدم اٹھایا ہی نہیں۔

اس کی وجہ شاید میری دادی کے ٹنکی میں گر کر مر جانے والے بچے کے والدین کی غم سے نڈھالی اور بری حالت کے بارے میں قصے ہی تھے۔ مجھے لگا کہ مجھے اپنی بہن کو تھوڑا اور بڑا ہونے تک انتظار کرنا ہوگا شاید کہ یوں جب وہ مجھے کھو دیں گے تو انہیں تھوڑا کم صدمہ پہنچے گا۔

پڑھیے: ڈپریشن اور 'ناشکرے پن' میں فرق

میں جب یہ کہانیاں یاد کرتی ہوں تب میں شرمندہ محسوس نہیں کرتی۔ میں ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو خودکشی کو بزدلی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک، میں صرف یہی کہہ سکتی ہوں کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

خودکشی کرنے کا خیال کرنا ایک حقیقت ہے۔ لوگوں کو بزدل پکارنے سے آپ انہیں اپنی زندگی ختم کرنے سے نہیں روک سکتے۔ بلکہ کئی افراد، بشمول میرے، نزدیک اسے بزدلی قرار دینا ذہنی صحت کے مسائل کی جانب ہٹ دھرم لاعلمی کی ایک اور مثال ہے۔

میں ایسے وقت میں ڈپریشن اور حادثے کے بعد پہنچنے والے شدید ذہنی صدمے (Post-Traumatic Stress Disorder یا PTSD) کا شکار تھی جب میں ان لفظوں کا مطلب بھی نہیں جانتی تھی۔ میں نے خود میں صرف ان کی علامات کو محسوس ہوا: میں نے ان علامات کو دیگر لوگوں کی جانب اپنے رویے اور دیگر لوگوں کے رویوں میں ظاہر ہوتے دیکھا۔

ایک ایسا بھی وقت تھا جب لوگوں کے رد عمل سے اس قدر خائف رہتی تھی کہ میں بار بار اپنے کام کا جائزہ لیتی تھی کہ کہیں میں نے کوئی ’گڑ بڑ’ تو نہیں کی ہے، حالانکہ اس کام کو میں بار ہار کر چکی بھی ہوتی تھی۔ ذرا سی بھی تعریف یا اعتراف میرے لیے اس شخص کے مقابلے میں کافی زیادہ معنی رکھتی جو میری طرح ناکامی کے خستہ احساس سے مسلسل نبرد آزما نہیں ہوتا۔

میں نے اپنی صورتحال کے بارے میں کبھی بھی ساتھیوں یا دوستوں کو نہیں بتایا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ یہ ان پر اضافی بوجھ ثابت ہوگا۔ میں پریشان تھی کہ کہیں انہیں اپنی زندگیاں میری ضروریات اور میرے جذبات کے مطابق ڈھالنی نہ پڑ جائیں، اور وہ مجھے کبھی بھی اپنے مسائل نہیں بتا پائیں گے کیونکہ کسی نہ کسی صورت میرے مسائل ان کے مسائل کے مقابلے میں ہمیشہ ہی زیادہ بڑے ہوں گے۔ میں کسی بھی صورت ان کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی۔

پڑھیں: ڈپریشن 'اداسی' نہیں بلکہ بیماری ہے

آپ اپنے پیاروں کو یہ کیسے بتائیں گے کہ جب وہ آپ کو مسلسل اپنے قابو میں رکھتے ہیں تو وہ آپ کو کسی 6 سالہ بچے جتنا بنا دیتے ہیں جسے یہ بتایا جاتا ہے کہ بھلے ہی وہ کتنا چیخے چلائے، چاہے وہ کسی کو بھی کچھ بتائے، کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو اسے سن یا سمجھ پائے گا؟ یہاں تک کہ اپنی ماں کو بھی نہیں۔ آپ اپنے جذبات دوسرے کے اوپر مسلط نہیں کر سکتے۔

یہاں تک میں ان لوگوں کو بھی یہ بتانے کے لیے ہمت نہیں سمیٹ سکی جو میرے قریب ترین تھے اور جانتے تھے کہ میں ڈپریشن سے نمٹ سے رہی ہوں، شاید اس کی وجہ میری محتاط طبیعت اور ذہنی دباؤ کے ظاہر آثار تھے۔ مجھے لگا کہ انہیں بتانا ٹھیک نہیں ہوگا۔ جیسے کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ میں کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی۔

اس کے برعکس، میں نے اس بات کو یقینی بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کی کہ میرے ارد گرد لوگ جب کچھ اچھا کام یا اپنی دیرینہ خواہش کو پا لینے پر ان کی تائید کی جائے۔ یوں میرے پاس بات کرنے کا مقصد ہوگا، مگر جلد ہی میرے لیے یہ صرف احساس مقصد بن گیا تھا۔ اس طرح میں مزید کمزور ہو گئی، میری صورتحال مزید بدتر ہو گئی اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ جیسے میری حیثیت مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔

میرے ڈپریشن نے مجھ میں یہ سوچ پیدا کر دی تھی کہ میں کسی دوست صرف اسی صورت میں ہی بن سکتی ہوں اگر میں مسلسل ان کی تعریفیں کرتی رہوں، چاہے میرے احساس جو بھی ہوں۔ مجھے لگتا تھا کہ خود کو منوانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میں تمام کاموں کی ذمہ داری اٹھا کر انہیں احسن انداز میں انجام دوں۔

میرے ڈپریشن نے غلط طور پر مجھے قائل کر دیا تھا کہ زیادہ تر جن لوگوں سے میں ملتی ہوں وہ میرے بارے میں سوچتے ہیں کہ میں ایک ناکارہ ہوں اور زندگی میں حاصل ہونے والی میری تمام کامیابیاں محض اتفاقی یا مقدر کا کھیل تھیں۔ ہر اعزاز یا تعریف مزید دباؤ کو دعوت دینے کی مترادف ہوتی۔ مجھے لگا کہ میں کامیابی کی مستحق نہیں ہوں اور مجھے عزت کمانے کی خاطر خود کو مزید ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا میں نے کچھ موقعوں پر اپنے وجود کو لوگوں کی ضرورتوں کے مطابق اداکاری کرتے ہوئے دیکھا، پھر چاہے میری زندگی کی ہی دھن اور سکون برباد ہوتا ہو۔

کلیگز اور دوستوں کے ہمراہ ایک سفر کے دوران میں نے پورا ایک ہفتہ بالکل ہی ایک مختلف شخص بن کر کیا۔ ایک ایسا شخص جو گاڑی میں بیٹھنے کے ایک منٹ کے بعد ہی گفتگو کا آغاز کرنا ہے، ایسا شخص جیسے سڑک پر ایک نئی بائیک یا آس پاس کسی ٹیکنالوجی کے بارے میں مشاہدہ پیش کرنا ہے۔ میرے علاوہ کسی دوسرے نے ان موضوعات پر بات نہیں کی کیونکہ مجھے اپنی تکلیف چھپانے کے لیے اس کی ضرورت بھی تھی۔

پڑھیے: ڈپریشن سے متعلق 10 غلط فہمیاں

بدقسمتی کے ساتھ، میرے نزدیک، یہ ایک الجھے معاملات کا ایک مجموعہ ہے — پی ٹی ایس ڈی کا مطلب ایک ایسی حالت کا شکار ہونا ہے جہاں آپ اپنی زندگی میں ہوئے سب سے زیادہ صدمہ خیز حادثات کی آوازوں اور مناظر میں الجھے رہنا ہے جہاں آپ کو ایسے خیال اپنی مرضی کے مطابق ذہن میں آتے رہتے ہیں۔

تصور کریں کہ آپ ایک درجن لوگوں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھے ہیں، جو آپ سے پوچھے گئے سوال کا جواب ملنے کے منتظر ہیں مگر آپ کے سر میں صرف ایک ہی تصویر گھوم رہی ہے جس میں آپ سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور گُھپ اندھیرے کمرے میں گرے پڑتے ہیں۔

تصور کریں کہ آپ کی شادی ہو رہی ہے اور آپ کے ذہن میں ایسے مناظر ہیں جن میں آپ کی عمر 6 برس ہے اور آپ جلد بازی میں اپنی ٹانگوں سے خون کے داغ صاف کر رہے ہیں۔

تصور کریں کہ یہ مضمون لکھتے ہوئے، آپ پر ظلم کرنے والا کہتا ہے کہ، "تمہیں کوئی بھی سننا نہیں چاہتا۔" یہ سب تصور کریں اور امید ہے کہ آپ کو ایسے کسی بھی کرب کے ساتھ زندگی نہ گزارنی پڑے۔

چند موقعوں پر میں کیسا محسوس کرتی ہوں، انہیں لکھ پانا مشکل ہے کیونکہ میری بیماری کے باوجود، میں خود کو ایک فعال انسانی وجود بھی تصور کرتی ہوں جسے کام کرنا ہوتا ہے، جسے دوست اور گھروالوں کے ساتھ رہنا ہے۔

پڑھیے: خودکشی کا رجحان: علامات پہچانیے

مجھے لگتا ہے کہ اپنے تمام تجربات کے بارے میں لکھنا دیگر لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنے گا۔ شاید وہ سوچیں گے کہ میں ان کی تکالیف کی شدت کا اعادہ کیے بغیر ان کی تکلیف پر شور مچا رہی ہوں اور یہ کہ ان سے جان چھڑانا بھی آسان ہے۔

لیکن اس گہرے، تباہ کن درد سے اگر کچھ میں نے سیکھا ہے تو یہ کہ جب جب آپ لوگوں کو اپنی تکالیف، اپنی زندگی کے حصوں کو دوبارہ سے ترتیب دینے سے لے کر بیماری کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے تک، کو بتانے سے گریز کرتے ہوئے اپنے لیے پابندیاں کھڑی کرتے ہیں تب تب آپ خود مزید تکلیف اور کرب میں دھکیلتے جاتے ہیں۔ کیونکہ دیگر لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے ڈر سے جب تک آپ اپنے لیے کھڑے نہیں ہوتے تب تک آپ کو تکلیف پہچانے والے عناصر مزید تقویت پاتے جاتے ہیں۔

وہ کوئی بھی جو ایسی تکلیف سے گزر رہا ہے، میں آپ کو بتانا چاہوں گی کہ آپ تنہا نہیں، آپ کسی کے لیے دشواری کا باعث نہیں اور نہ آپ اس صورتحال سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی نکل پائیں گے۔ آپ اپنے لیے ثابت قدمی سے کھڑے ہونے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جو آپ سے پیار کرتے ہیں، وہ آپ کو سمجھیں گے اور گہری کھائیوں سے بچانے میں مدد کریں گے۔

مسئلہ وہ لوگ ہیں جو بڑے شوق سے بے حس روش اپناتے ہیں، جو کسی کی تکلیف پر محتاط رویہ نہیں اپناتے، جن کے پاس ہمدردی دینے کے لیے وقت ہی نہیں اور جو آپ سے پوچھے بغیر کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں، ایک منٹ میں آپ کی حالت کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔

لوگوں کو خودکشی یا ڈپریشن کے بارے میں لیکچرز دینے سے بہتر ہے کہ ایک لمحہ رک کر ان کی بات سنیں اور ان کے لیے کچھ عملی اقدام کریں۔ ہو سکتا ہے کہ جن کے ساتھ آپ زندگی گزار رہے ہوں وہ اب بھی اپنی 8 سالہ زندگی میں اپنے وجود کو مقید رکھے ہوئے ہیں، جو ایک ایسے فیصلے پر غور و فکر کر رہے ہوں جس پر عمل کر کے انہیں پچھتانا نہیں پڑے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Nikhat Mar 22, 2017 12:16pm
That's true....Sometimes you just need a kind ear to listen- A shoulder to cry on- A hand to hold on or a warm "Jaadoo kee Jhappee"!!!!