کراچی: ایک سال کے عرصے میں دو بار اے ٹی ایمز پر اسکیمنگ ڈیوائسز کے ذریعے ڈیٹا چرانے کی کوشش کرنے والے چینی باشندوں کی گرفتاری نے حکام کو چوکنا کردیا۔

اس واقعے کی ابتدائی تحقیقات میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے انکشاف کیا ہے کہ اے ٹی ایمز کے لیے بینکوں کی جانب سے 'متروکہ ٹیکنالوجی' کا استعمال اور اے ٹی ایمز بوتھ پر دہائیوں پرانے سیکیورٹی سسٹمز کی وجہ سے یہ 'غیر ملکی منظم جرائم کے گروہ' کے لیے آسان اہداف بن گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اے ٹی ایم سے ڈیٹا چرانے والا چینی شہری گرفتار

اس صورتحال کی وجہ سے ایف آئی اے نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ بینکوں کو اپنے اے ٹی ایمز میں سیکیورٹی اقدامات کو بڑھانے کی ہدایت کرے جس میں اے ٹی ایم سروس کے استعمال کے لیے بائیومیٹرک فیچر بھی شامل ہو۔

ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ 'ہم اس معاملے پر اسٹیٹ بینک سے رابطے میں ہیں، ہم نے ایک سال کے اندر دو آپریشنز میں تین افراد کو گرفتار کیا اور ان تینوں کا تعلق چین سے ہے جبکہ مزید چینی باشندوں کی موجودگی کے شواہد موجود ہیں جو کراچی میں سرگرم ہیں'۔

مزید پڑھیں: کراچی میں منظم گروپ بینکوں سے ڈیٹا چرانے میں ملوث

خیال رہے کہ چینی باشندوں کی گرفتاری کا پہلا واقعہ گزشتہ برس جون میں سامنے آیا تھا تاہم چینی باشندوں کی دوبارہ گرفتاری سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس واقعے کا بینکوں نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔

ایف آئی اے نے گزشتہ ہفتے بھی دو چینی باشندوں کو گرفتار کیا جو مبینہ طور پر ایک بینک کے اے ٹی ایم سے اسکیمنگ ڈیوائس کے ذریعے ڈیٹا چرانے میں ملوث تھے۔

یہ گرفتاری بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو کی جانے والی شکایت کے بعد عمل میں آئی تھی۔

ایف آئی اے نے کئی روز تک نگرانی کے بعد دو چینی باشندوں زونگ شیان منگ اور ژونگ شیان کوان کو گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے اسکیمنگ ڈیوائسز برآمد کرلیں۔

یہ بھی پڑھیں: اے ٹی ایم فراڈ سے کیسے بچیں؟

ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ 'دونوں چینی باشندے جنوری 2017 میں پاکستان آئے حالانکہ اس سے قبل ایک چینی باشندہ اسی جرم میں پاکستان کی جیل میں قید تھا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستانی بینک ان غیر ملکی گروپس کے لیے آسان ہدف ثابت ہورہے ہیں کیوں کہ ان کے پاس جدید سیکیورٹی فیچرز موجود نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ اسکیمنگ ڈیوائسز کے ذریعے بینک ڈیٹا چوری کرنا کافی پرانا طریقہ ہے جو دنیا کے کئی ملکوں میں برسوں پہلے استعمال ہوچکا ہے لیکن چونکہ اب زیادہ تر ممالک نے جدید سیکیورٹی اقدامات کرلیے ہیں لہٰذا اب یہ طریقہ ان ملکوں میں قابل استعمال نہیں رہا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں