اسلام آباد: وزارت داخلہ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تحقیقات کے لیے 7 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔

اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر مظہرالحق کاکاخیل کریں گے۔

ٹیم میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ٹریننگ یاسین فاروق، ڈپٹی ڈائریکٹر شعیب عظیم، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ڈی جی ویب مانیٹرنگ نثار خان، ایس پی مصطفیٰ تنویر، جبکہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کا ایک، ایک نمائندہ شامل ہوگا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اپ لوڈ کرنے والوں کی تلاش کرے گی۔

جے آئی ٹی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہدایت کی روشنی میں قائم کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گستاخانہ مواد کی اشاعت میں ملوث ایک شخص گرفتار: ایف آئی اے

واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست کی سماعت جاری ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سربراہی میں کیس کی گزشتہ سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے معاملے پر اپنی رپورٹ عدالت کو پیش کی تھی۔

ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد دو روز قبل ہی ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جبکہ کئی افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالے جاچکے ہیں۔

گستاخانہ مواد کا معاملہ قومی سطح پر خاصی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔

14 مارچ کو وزیراعظم نواز شریف نے بھی سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کو ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایات دی تھیں کہ اس مواد کو پھیلانے والے افراد کا سراغ لگا کر انہیں قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں۔

مزید پڑھیں: 'کیا گستاخانہ مواد کی بندش میں عسکری اداروں کی مدد لی جائے؟'

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد پھیلانے والے 11 افراد کی شناخت کے حوالے سے اپنا بیان جاری کرچکے ہیں۔

وزرات داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ اس معاملے میں کچھ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کے لیے ایف آئی اے نے انٹرپول سے بھی مدد طلب کرلی ہے، کیوں کہ ان میں سے کچھ افراد کے ملک میں نہ ہونے کے اشارے ملے ہیں۔

سوشل میڈیا پر توہین رسالت ﷺ پر مبنی مواد کے خلاف قومی اسمبلی میں قرار داد مذمت بھی متفقہ طور پر منظور کی جاچکی ہے، جس میں ایوان نے سوشل میڈیا پر توہین رسالت ﷺ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے فوری طور پر اس کے خلاف اقدامات اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں