راولپنڈی: امریکا میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے امریکی اخبار میں شائع ہونے والے مضمون پر پاک فوج کا موقف بھی سامنے آگیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں کہا کہ سفارتی ویزوں کے اجراء کے حوالے سے حسین حقانی کے بیانات سے 'پاکستان کے ریاستی اداروں کے موقف کی تصدیق ہوتی ہے'۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ 'ویزا اجرا کے پورے معاملے میں حسین حقانی کے کردار کے حوالے سے خدشات کی بھی تصدیق ہوئی'۔

یاد رہے کہ مارچ کے مہینے میں امریکی اخبار میں حسین حقانی کا ایک مضمون منظر عام پر آیا تھا جس میں حسین حقانی نے دعویٰ کیا تھا کہ اوباما انتظامیہ سے ان کے 'روابط' کی وجہ سے ہی امریکا القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا۔

انہوں نے اپنے مضمون میں امریکیوں کو جاری کیے جانے والے ویزوں کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ اسامہ تک کیسے پہنچا: ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ

واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں حسین حقانی نے 2016 کے امریکی انتخابات سے قبل اور بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے روس سے تعلقات کا دفاع کیا اور کہا کہ انھوں نے بھی 2008 کے انتخابات میں سابق صدر اوباما کی صدارتی مہم کے ارکان کے ساتھ اسی طرح کے تعلقات استوار کیے تھے۔

انھوں نے لکھا، 'ان روابط کی بناء پر ان کی بحیثیت سفیر ساڑھے 3 سالہ تعیناتی کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکا کے درمیان قریبی تعاون ہوا اور آخرکار امریکا کو پاکستان کی انٹیلی جنس سروس یا فوج پر انحصار کیے بغیر اسامہ بن لادن کے خاتمے میں مدد ملی'۔

حسین حقانی نے لکھا، 'اوباما کی صدارتی مہم کے دوران بننے والے دوستوں نے، '3 سال بعد ان سے پاکستان میں امریکی اسپیشل آپریشنز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے حوالے سے مدد مانگی'۔

سابق سفیر کے مطابق، 'میں نے یہ درخواست براہ راست پاکستان کی سیاسی قیادت کے سامنے رکھی، جسے منظور کرلیا گیا، اگرچہ امریکا نے آپریشن کے حوالے سے ہمیں باقاعدہ طور پر پلان سے باہر رکھا، تاہم مقامی طور پر تعینات امریکیوں کی ناکامی کے بعد سابق صدر اوباما نے پاکستان کو اطلاع دیئے بغیر نیوی سیل ٹیم 6 بھیجنے کا فیصلہ کیا'۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے جاری کردہ مختصر بیان میں بظاہر میمو گیٹ اسکینڈل کی جانب اشارہ دیا گیا۔

میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: میمو ،حسین حقانی ہی کی تخلیق تھا، تحقیقاتی کمیشن

اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد پاکستان کی سویلین حکومت کو امریکا کا دوست ظاہر کرنا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایٹمی پھیلاؤ روکنے کا کام صرف سویلین حکومت ہی کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ’حسین حقانی کو ویزوں کے اجرا کا اختیار نہیں تھا‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔

کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 'حسین حقانی یہ بھول گئے تھے کہ وہ پاکستانی سفیر ہیں، انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی'۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ahmak adami Mar 29, 2017 08:53pm
what did u do to arrest or punish him? This information is known to all. Rahman malik says something ekstra as well. what is your opinion? Do not speak what is already published.