سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرپشن اور کرپٹ افراد کے احتساب کی نگرانی کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) میں قابل اور تجربہ کار افراد کی تعیناتی کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب تعنیاتی کے طریقہ کار اور امیدواروں کی اہلیت پر کوئی استثنیٰ نہیں دے سکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ہانی مسلم نے نیب میں غیر قانونی بھرتیوں اور غیر قانونی ترقیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بظاہر قومی احتساب آرڈینس کا مقصد بڑی کرپشن میں ملوث افراد یا اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے افراد پر نظر رکھنا تھا نہ کہ معمولی مجرموں کو گرفتار کرنا تھا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ نیب کا کام ذمہ دار ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لا کر کرپشن کو ختم کرنا ہے۔

جسٹس ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ نیب کا مقصد کرپشن میں ملوث افراد اور ایسے افراد جنھوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ان کے خلاف تفتیش اور انھیں قانون کے کٹہرے میں لانا ہے اور مزید کہا کہ نیب کے پاس اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی پولیس کی پکڑ میں نہیں آنے والے 'وائٹ کالر مجرمان' کے خلاف کارروائی کا بھی اختیار ہے ۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق یہ بہت ضرروی ہے کہ نیب مختلف عہدوں پر تعیناتی کے دوران تقرری اور قابلیت کے طریقے (ایم اے کیو) کے مقررہ شیڈول اور ملازمین کی ترقیوں کے شرائط و ضوابط (ٹی سی ایس) 2002 کے تحت امیدواروں کی قابلیت اور تجربے کو مدنظر رکھا جائے۔

یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ نیب تعیناتیوں، بھرتی اور ترقیوں کےحوالے سے بہت سی خامیوں کو ماننے کے باوجود ایک مختلف نقطہ نظر رکھتا ہے۔

جسٹس مسلم ہانی نے یاد دلایا کہ نیب کے وکلا اور پراسیکیوٹر جنرل وقاص قدیر ڈار نے تعلیمی قابلیت اور مطلوبہ تجربہ معیار کے مطابق نہ ہونے پر وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی اور اس حوالے سے کئی غیرتسلی بخش دلائل دیے گئے تھے۔

ٹی سی ایس کی شق 14.03(2) کے لیے ایک ریفرنس بنایا گیا جبکہ دوسری دلیل دی گئی کہ تبدیلیوں کے ذریعے سے ہونے والی تعیناتی ٹی سی ایس کی شق VI کا حصہ تصور کیا جائے گا اور یہ ان کے اپنے طریقہ کار کے مطابق ہوگا۔

نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے اکیڈمک کوالیفیکیشن کے تحت نئی تجویز دی کہ اگرکسی امیدوار کے پاس کسی موزوں ادارے کی منظور شدہ قابلیت ہو تو اس کا تقرر کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ نیب چیئرمین کے پاس کسی شق یا شرط سے استثنیٰ دینے کے اختیارات ہیں جبکہ ایک اور سینیئر قانون دان نے ایک اور غیرمعمولی نقطہ نظر پش کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی تعیناتی وزیراعظم کی جانب سے جاری کردہ پالیسی کے تحت کی گئی ہو تو اس کے لیے مقررہ اہلیت اور مطلوبہ تجربہ غیراہم ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں