لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ نکاح نامے میں جہیز کے سامان سے متعلق اندراج کے شمار کیلئے ضروری قانون سازی کرے تاکہ شادی کے اختتام کی صورت میں جہیز کی واپسی میں خواتین کو درپیش مسائل کم کیے جاسکیں۔

ایک خاتون کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس طارق افتخار احمد نے کہا کہ 'شادی کے حوالے سے ایک قانون ہونا چاہیے جس میں شادی سے متعلق تمام چیزوں کا احاطہ ہوتا ہو، نکاح نامے میں جہیز کی اشیاء کے اندراج سے متعلق ایک شمار کا کالم ہونا چاہیے جو مستقبل میں دلہن کیلئے سماجی اور قانونی حوالوں سے مفید ثابت ہوسکے'۔

پٹیشنر نے بھاولپور کی مقامی عدالت کی جانب سے جہیز کی اشیاء کی 'غلط لاگت' لگائے جانے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جہیز کی لعنت جدید پاکستانی معاشرے میں عورت کیلئے ایک خطرہ ہے، جس میں جسمانی تشدد نہ صرف دلہن بلکہ اس کے والدین کیلئے مالی اور جذباتی دباؤ کی وجہ ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'اس سوچ کو تبدیل ہونا چاہیے، اس کو پر مرحلے پر آہنی ہاتھوں سے ختم کیا جانا چاہیے اور معاشرے میں سکون اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کیلئے اکھاڑ دیا جانا چاہیے'۔

جج نے افسوس کا اظہار کیا کہ آزاد پاکستان کی حکومتوں نے بغیر کسی ترمیم کے وارثت میں ملنے والے برطانوی قوانین کو برقراررکھا ہوا ہے۔

جسٹس طارق افتخار احمد کا کہنا تھا کہ 'اسی لیے بدقسمتی سے آج پاکستان میں ذاتی قانون مختلف ہیں جو متعلقہ شخص کے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، مسلم خواتین اور عیسائی خواتین کیلئے حقوق اور بھی کم ہیں'۔

جسٹس احمد کا کہنا تھا کہ نکاح نامے میں جہیز کی اشیاء کے اندراج کے حوالے سے قانون سازی کی جانی چاہیے، اگر یہ ہوجائے تو عدالتوں اور معاشرے میں جہیز کے مسائل کا خاتمہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ دلہن کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے اور اسے جہیز کی منفی اثرات کی معلومات ہونی چاہیے اور انھیں یہ سکھایا جائے کہ وہ زیادہ آزادی اور خوشی کے ساتھ ایک بہتر زندگی کی قیادت کر سکتی ہیں.

جسٹس طارق افتخار احمد نے سیکریٹری قانون کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ حکام کے ساتھ اس معاملے کو اٹھائیں تاکہ جلد از جلد از اس حوالے سے قانون سازی کی جاسکے۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ نے مذکورہ پٹیشن کو مقامی عدالت کے فیصلے میں غیر قانونی یا بے ضابطگی ظاہر نہ ہونے پر خارج کردیا، جو جہیز کے سامان کی لاگت سے متعلق سنایا گیا تھا۔

یہ رپورٹ 5 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں