پاکستانی کشتی 'سلامہ-ون' صومالی قزاقوں کے ہاتھوں یرغمال

اپ ڈیٹ 05 اپريل 2017
صومالیہ میں گزشتہ تین ہفتوں میں کشتیوں کے اغوا کی یہ چوتھی واردات ہے—فوٹو: اے پی
صومالیہ میں گزشتہ تین ہفتوں میں کشتیوں کے اغوا کی یہ چوتھی واردات ہے—فوٹو: اے پی

صومالی قزاقوں نے ہندوستانی کشتی الکوثر کے 48 گھنٹوں کے بعد پاکستانی کشتی سلامہ 1 کو یرغمال بنا لیا۔

وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق مقامی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی کشتی کو دو روز قبل اغوا کیاجا چکا ہے تاہم اس کے عملے کے ارکان کے حوالے سے تفصیل معلوم نہیں ہوسکی۔

وسطی صومالیہ کے شہر ہوبویو کے میئر عبداللہ ہی احمد علی کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق پاکستان کشتی کو ساتھ قریبی علاقے الحر لے جایا گیا ہے جہاں پر 48 گھنٹے قبل یرغمال ہونے والی بھارتی کشتی الکوثر کو عملے کے 11 اراکین کے ساتھ لنگر انداز کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ وسطی صومالیہ کے علاقے ہوبویو کو بحری قزاقوں کی جنت تصور کیا جاتا ہے جہاں گزشتہ ایک دہائی دوران درجنوں بحری جہازوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا جاچکا ہے۔

میئر عبداللہ ہی احمد علی کا کہنا تھا کہ ان کا شہر قزاقوں سے 'پاک' ہوچکا ہے لیکن اب ایک مرتبہ پھر خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ قزاقوں نے سراٹھانا شروع کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'قزاق واپس آگئے ہیں، چیزیں ویسی نہیں ہیں اس لیے ہمیں مقابلہ کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ سلامہ 1 گزشتہ تین ہفتوں کے دوران یرغمال ہونے والی چوتھی کشتی ہے، اس سے قبل 13 مارچ کو سری لنکن کا تیل بردار تینکر ایرس 13 کو اغوا کیا گیا تھا تاہم تین دن بعد اس کو چھوڑ دیا گیا تھا۔

صومالی قزاقوں نے 24 مارچ کو صومالیہ کے ماہی گیروں کی کشتی ایم وی کیسیر کو اغوا کیا تھا جس کو دوسرے بحری جہازوں کو اغوا کرنے کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔

صومالیہ کے سابق انٹیلی جنس افسر عبدی حسن نے خطے میں بحری قزاقوں کی واپسی کا اعتراف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ منظم گروہوں نے جدید تیاری کے ساتھ حملوں کا آغاز کردیا ہے۔

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'آٹھ سے زیادہ گروہ قزاقی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جن میں سے چند باقاعدہ سمندر میں جاتے ہیں، چند انتظامات میں مصروف ہوتے ہیں اور دیگر باقاعدہ حملے کرتے ہیں'۔

عبدی حسین نے خبردار کیا کہ 'اگر صومالیہ حکومت اور عالمی برادری نے ان واقعات کے سدباب کے لیے کارروائی نہیں کی تو انے والے دنوں میں اس طرح کے واقعے بڑھنے کا خدشہ ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں