اسلام آباد: پاکستان کو ایک مفرد صورت حال کا سامنا ہے اور یہ اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے عہدے پر کوئی شخص باقاعدہ تعینات نہیں ہے۔

یہ صورت گذشتہ ہفتے اے جی پی کے دفتر سے بھیجی گئی ایک متنازع سمری کے بعد پیش آئی جسے وزیراعظم ہاوس نے وقت سے پہلے ہی روک دیا تھا۔

نئی سمیری میں 6 اراکین پر مشتمل پینل کی تجویز پیش کئی گئی ہے جبکہ گذشتہ کی سمری میں یہ تعداد 4 تھی تاہم یہ وقت پر منظور نہ ہوسکی اور اے جی پی رانا اسد امین نے 8 اپریل کو اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔

اسی طرح آئین کے آرٹیکل 168 کے مطابق آڈیٹر جنرل کے آئینی عہدے کے انتظامات چیف جسٹس آف پاکستان دیکھ رہے ہیں۔

اس صورت حال کے بارے میں ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'اس وقت قانونی اور آئینی خلاء پیدا ہوگیا ہے'۔

اس معاملے میں ہونے والی پیش رفت سے واقف ذرائع کا کہنا تھا کہ نئی سمری میں مزید دو نام بھی تجویز کیے گئے ہیں جنھیں گذشتہ ہفتے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر کی جانب سے بھیجی گئی سمری میں نظر انداز کردیا گیا تھا، ان میں گریڈ 22 کی شگفتہ خانم اور آصف شامل ہیں۔

بعد ازاں سمری کے ساتھ زبانی طور 22 گریڈ کے ایک اور افسر حق نواز کو بھی اے آئی پی کے دفتر کیلئے موضوع قرار دیا گیا تاہم وہ اپنی زندگی کے 60 سال مکمل ہونے پر رواں سال ریٹائر ہوجائیں گے۔

خیال رہے کہ اے جی پی آفس کے معاملات کو عارضی طور پر دیکھنے والا شخص آئینی فرائض اور کارروائیاں انجام نہیں دے سکتا کیونکہ اس کے پاس فیڈریشن، صوبائی حکومتوں اور ان منسلک مختلف ایجنسز کے اکاؤنٹس منظور کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ آڈیٹر جنرل کے عہدے پر عارضی طور پر تعینات کیے جانے والے شخص کو سالانہ رپورٹس کو بحث اور منظوری کیلئے صدر اور پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کا اختیار بھی نہیں ہوتا۔

ایک باقاعدہ آڈیٹر جنرل کی غیر موجودگی میں اے جی پی کا دفتر 300 سے زائد ترقیاتی منصوبوں کیلئے اکاؤنٹس سرٹیفیکیٹ بھی جاری نہیں کرسکتا، یہ تمام منصوبے غیر ملکی ایجنسیوں کے فنڈز سے تعمیر کیے جارہے ہیں جن میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یو ایس ایڈ اور اقوام متحدہ کی ایجنسیز شامل ہیں۔

صدر کو بھیجی گئیں تجاوز میں اکاؤنٹس اینڈ آڈٹ گروپ کے چار سینئر افسران اور ان کے دو ریٹائر افسران کو شامل کیا گیا ہے۔

ان حاضر سروس افسران میں پروین آغا، حق نواز، عمران اقبال، شگفتہ خانم جبکہ ریٹائر افسران میں جاوید جہانگیر اور آصف شامل ہیں۔

پاکستان اس وقت 199 ممالک کی بین الاقوامی آرگنائزیشن آف سپریم آڈٹ انسٹیٹیوٹشن کا واحد رکن ہے جہاں باقاعدہ آڈیٹر جنرل موجود نہیں ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے آڈیٹر جنرل مذکورہ آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل اور ترکی کے آڈیٹر موجودہ صدر ہیں اور اس صورت حال میں یہ پیش رفت مزید شرمناک صورت اختیار کرگئی ہے۔

یہ رپورٹ 11 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں