اقوام متحدہ (یو این) نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سنائی جانے والی سزائے موت پر تبصرے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ اس معاملے پر کوئی رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

بدھ (12 اپریل) کو معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران بھارتی صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک کا کہنا تھا، ’ہم اس معاملے پر کوئی رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘۔

کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھارت اور پاکستان میں بڑھنے والی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے ترجمان نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا۔

اسٹیفن ڈوجیرک کا کہنا تھا، ’پاک-بھارت تعلقات کو دیکھتے ہوئے ہم فریقین کو مذاکرات اور رابطے کے ذریعے پرامن حل تلاش کرنے کی تجویز دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے‘۔

مزید پڑھیں: بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنا دی گئی

خیال رہے کہ دو روز قبل سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کلبھوشن یادیو کو فوری پھانسی دیئے جانے کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ وہ سزائے موت کے خلاف 60 روز کے اندر اندر اپیل کرسکتا ہے اس کے علاوہ کلبوشن کو چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر پاکستان سے رحم کی اپیل کا بھی اختیار حاصل ہے۔

کلبھوشن کی گرفتاری اور ٹرائل

خیال رہے کہ 3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے بھارتی جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔

'را' ایجنٹ کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’سوچے سمجھے قتل میں پاکستان نہیں بھارت ملوث‘

کلبوشھن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

ویڈیو میں کلبوشھن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

رواں ہفتے 10 اپریل کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنادی گئی تھی۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو یہ سزا پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سنائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کو بچانے کیلئے ہر حد تک جائیں گے: بھارت

کلبھوشن یادیو کا ٹرائل فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے تحت کیا تھا، جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کردی تھی۔

سزا کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اپنے فوری ردعمل میں بھارت کا کہنا تھا کہ اگر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا تو یہ ’پہلے سے سوچا سمجھا قتل‘ تصور کیا جائے گا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی دفتر خارجہ نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرکے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائے جانے کو 'مضحکہ خیز' قرار دیتے ہوئے انہیں احتجاجی مراسلہ بھی دیا تھا۔

ڈان اخبار کے مطابق فوجی قوانین کے ماہر ریٹائرڈ کرنل انعام الرحمٰن کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادیو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے خلاف آرمی کورٹ اپیل میں 40 روز کے اندر اپنی درخواست دائر کرسکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اپیل کورٹ، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو کلبھوشن یادیو آرمی چیف اور صدر پاکستان سے بھی رحم کی اپیل کرسکتا ہے۔

کرنل انعام کے مطابق مجرم اگر ضرورت محسوس کرے تو وہ ہائی کورٹ کا رخ بھی کرسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں