صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے تشدد سے ہلاک ہونے والے 23 سالہ طالب علم کے قتل کی ایف آئی آر درج کرلی گئی۔

تھانہ شیخ ملتون میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں 20 ملزمان کو نامزد کیا گیا اور مقدمے میں دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل سمیت 7 دفعات شامل کی گئیں۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) مردان ڈاکٹر میاں سعید احمد کے مطابق 20 نامزد ملزمان میں سے 8 کو گرفتار کر لیا گیا۔

ڈاکٹر میاں سعید احمد کا کہنا تھا کہ گرفتار کیے گئے ملزمان کی شناخت ویڈیوز کے ذریعے ممکن ہوئی جبکہ واقعے میں ملوث دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی 3 ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں اور مردان سمیت قریبی اضلاع میں چھاپے مارے جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: گستاخی کا الزام، ساتھیوں کے تشدد سے طالبعلم ہلاک: پولیس

واقعے کے بعد سے عبدالولی خان یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں جبکہ یونیورسٹی سے متصل بوائز ہاسٹل کو بھی خالی کرکے بند کیا جاچکا ہے۔

دوسری جانب آئی جی خیبرپختونخوا کا کہنا ہے کہ مردان واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

میرا بیٹا گھر آ گیا ہے‘

گذشتہ روز افسوسناک واقعے میں ہلاک ہونے والے طالب علم مشعال کے والد اقبال شاعر سے جب پولیس نے پوچھا کہ کیا انہیں کسی پر شبہ ہے؟ تو اقبال کا کہنا تھا کہ وہ خود یونیورسٹی میں موجود نہیں تھے تاہم وہاں کیمرے موجود تھے اور واقعے کی عکس بندی ہوئی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صرف میرا بیٹا ہی نہیں، کئی دوسرے لوگ بھی اس واقعے میں زخمی ہوئے، گورنمنٹ کی رٹ چیلنج ہوچکی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو اپنی عملداری (رٹ) کو ممکن بنانا چاہیے جبکہ میرے بیٹے کی موت کی بھی تحقیقات کرے۔

اقبال شاعر نے کہا کہ مشعال کو میں نے بڑا کیا تھا، اور کیسے کیا تھا یہ تو میرا خدا جانتا ہے، ہمارے اہل محلہ کو بھی کبھی میرے بیٹے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا بلکہ ان کا بیٹا مختلف معاملات میں حضرت محمد ﷺ کی سنتوں کا حوالہ دیا کرتا تھا۔

اقبال نے کہا کہ مشعال کی والدہ نے جب اپنے بیٹے سے پوچھا کہ وہ یونیورسٹی سے گھر کب آئے گا تو مشعال کا کہنا تھا کہ ہفتے اور اتوار کو چھٹی ہے اور وہ جمعے کی دن گھر کے لیے روانہ ہوجائے گا، ’وہ اب گھر آ گیا ہے‘۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز عبدالولی خان یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے تشدد سے ایک 23 سالہ طالب علم ہلاک جبکہ ایک اور طالب علم زخمی ہوگیا تھا۔

ڈی آئی جی مردان عالم شنواری کے مطابق ہلاک ہونے والے طالب علم پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا اور اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے مذکورہ طالب علم پر تشدد کیا تھا۔

واقعے کے فوری بعد 50 کے قریب افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، جن میں سے بیشتر کو بعدازاں رہا کردیا گیا تھا۔

افسوس ناک واقعے میں طالب علم کی ہلاکت کے بعد آج قومی اسمبلی میں بھی فاتحہ خوانی کی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

قلم Apr 14, 2017 12:41pm
ھمارے ملک میں اس طرح کا یہ نہ پہلا واقعہ ھے اور نہ ھی آخری اگر کسی کو سزا ملی ھوتی تو شائد اس طرح کے واقعات کم ھوتے اب بھی چار دن کاروائی ھو گی اور مجرم ایک ایک کرکے چھوڑ دئے جائیں گے جیسا پہلے ھوتا رھا۔