• KHI: Clear 19.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 13°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.8°C
  • KHI: Clear 19.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 13°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.8°C

'خواتین کے ووٹ الیکشن کے نتائج کا تعین کریں گے'

شائع April 20, 2017

اسلام آباد: پارلیمانی کمیٹی نے قومی اسمبلی کو حالیہ انتخابات کے حوالے سے ایک قانون منظور کرنے کی تجویز پیش کی ہے کہ کسی بھی حلقے میں خواتین کے ووٹ 10 فیصد سے کم نہیں ہونے چاہیے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اراکین نے یہ تجویز اس وقت پیش کی جب سیکریٹری الیکشن کمیشن نے انھیں ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ انتخابات کے نتائج کے اعلان کیلئے کچھ سیاسی جماعتیں خواتین کے 10 فیصد ووٹوں کو لازمی قرار دینے کے حق میں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے بجائے ان کا ماننا ہے کہ اگر حلقے میں 10 فیصد سے کم رجسٹرڈ ووٹ نہ ڈالے گئے ہوں تو نتائج کو روکا جاسکتا ہے'۔

یہ اب خفیہ نہیں رہا کہ متعدد سیاسی جماعتیں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے حق میں ہیں۔

اس حوالے سے اٹھائی جانے والی آواز نے یہ تجویز پیدا کردی ہے کہ الیکشن کے نتائج کا اعلان اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک مذکورہ حلقے میں خواتین کے ووٹوں کی تعداد کم سے کم 10 فیصد تک نہ ہو۔

رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عزرا فضل کا کہنا تھا کہ خواتین کو الیکشن عمل کا حصہ ہونا چاہیے جیسا کہ ان کی وجہ سے درست نمائندگی اسمبلیوں تک پہنچے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں یہ تجویز پیش کرتی ہوں کہ اگر کسی حلقے میں خواتین کے ووٹ کاسٹ کرنے کی تعداد 10 فیصد سے کم ہو تو اس حلقے کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دیا جائے'۔

کمیٹی کے چیئرمین میاں عبدالمنان نے پارلیمنیٹرینز کے انکم ٹیکس ریٹرنز کی جانچ پڑتال کی ابتدا کیے جانے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سراہا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے ای سی پی سے نوٹس موصول ہوا ہے اور میں نے تمام تفصیلات جمع کرادی ہیں'۔

ای سی پی کے سیکریٹری نے کہا کہ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ پاکستان کا الیکشن کمیشن بھارتی الیکشن کمیشن کی طرح کیوں کام نہیں کررہا۔

انھوں نے کہا کہ 'ای سی پی کے ملازمین کو دیگر سرکاری اداروں کے مقابلے میں کم تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں'، 'ملک میں صرف دو ہی دفاتر ای سی کو فراہم کیے گئے ہیں جبکہ دیگر دفاتر کرائے پر ہیں'۔

کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ وہ انتظامیہ کو تجویز پیش کریں گے کہ ای سی پی کا بجٹ 5 گنا تک بڑھا دیا جائے۔

رکن قومی اسمبلی نفیسہ خٹک نے اجلاس کے دوران یہ بات نوٹ کی کہ جرمنی کے پارلیمنیٹرینز کے مقابلے میں پاکستان کے پارلیمنیٹرینز کو حاصل ہونے والی سہولیات انتہائی مختلف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جرمنی میں ہر چیز ایک نظام کے تحت ہورہی ہےجبکہ پاکستان میں ہمیں مطلوبہ اعداد و شمار سی ڈی یا یو ایس بی پر بھی نہیں مہیا کیے جاتے'۔

رکن قومی اسمبلی مالک احتبار خان کا کہنا تھا کہ 'جرمنی میں رکن اسمبلی معلومات کے حصول کیلئے ریسرچرز سے رابطے میں ہوتے ہیں، لیکن ہمیں یہاں ایک خط لکھنے کیلئے ٹائپ رائٹر بھی دستیاب نہیں ہے۔

خیال رہے کہ یہ اراکین اسمبلی اس پارلیمانی وفد کا حصہ تھے جو حال ہی میں جرمنی کا دورہ کرکے آیا ہے۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے اراکین قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ 'ہم جرمن اراکین پارلیمنٹ کو دی جانے والی سہولیات سے کافی متاثر ہوئے ہیں، ان کے پاس تمام مسائل کیلئے ریسرچر موجود ہیں، اور قائمہ کمیٹی کا علیحدہ کمیٹی روم ہے، جبکہ یہاں بیشتر اجلاس کے انعقاد کیلئے کمیٹی کو کمرہ خالی ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے'۔

یہ رپورٹ 20 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025