اسلام آباد: حکومت نے تعطل کا شکار مقدمات، جلد انصاف کی فراہمی اور عدالتوں کے کام کے بوجھ کو تقسیم کرنے کیلئے شام کے اوقات میں عدالتوں کے قیام کا منصوبہ بنا لیا۔

قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ وزارت قانون نے شام میں عدالتوں کے قیام کیلئے ایک بل ڈرافٹ کیا تھا۔

یہ عدالتیں ابتدائی طور پر دارالحکومت اسلام آباد میں قائم کی جائیں گی اور بعد ازاں صوبائی حکومتوں سے کہا جائے گا کہ اس طریقہ کار پر عمل کریں۔

وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے دیگر اراکین اسمبلی کو بتایا کہ ان عدالتوں کے قیام سے قبل حکومت اس معاملے کو وفاقی کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کرے گی۔

اس سے قبل نگہت پروین میر نے ایک تحریری سوال پیش کیا تھا کہ کیا حکومت کسی ایسی تجویز پر غور کررہی ہے جو 24 گھنٹے عدالتوں کو کھلا رکھنے سے متعلق ہو۔

جس کے تحریری جواب میں وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے کہ عدالتوں کو 24 گھنٹے کھلا رکھا جائے تاہم 'ایوننگ کورٹ بل 2017' کے نام سے ایک بل ڈرافٹ کیا گیا ہے جس کے مطابق اسلام آباد کی حدود میں تعطل کاشکار مقدمات کی سماعت کیلئے عدالتیں شام میں بھی کام جاری رکھیں گی۔

انھوں نے کہا کہ 'ججوں کی موجودہ تعداد کے مقابلے میں تعطل کاشکار مقدمات بہت زیادہ ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہورا ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'زیر غور بل کے ذریعے اسلام آباد میں شام میں عدالتوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ کیسز کو جلد از جلد خارج کیا جاسکے'۔

پالیمانی امور کے وزیر نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ شام میں عدالتوں کے اوقات کار کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ فوجی عدالتوں کی بحالی کے بعد حکومت نے سول عدالتی نظام کو مضبوط بنانے کے حوالے سے عدالتی نظام میں اصلاحات کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

گیس لائن منصوبہ

وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے ایوان کو بتایا کہ تاپی منصوبے کے تحت پاکستان کو 21-2020 میں گیس کی فراہمی کا آغاز ہوجائے گا جس کے بعد ایوان نے ترکمانستان- افغانستان- پاکستان اور بھارت کے درمیان گیس پائپ لائن کے منصوبے پر تفصیلی بحث کی۔

قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ گذشتہ کئی ماہ سے سندھ کے متعدد علاقوں کو گیس کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے، تاہم وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ ان کی وزارت میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے کوئی باقاعدہ پالیسی موجود نہیں ہے۔

صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے کچھ اراکین نے کراچی اور حیدرآباد جبکہ حیدرآباد سے ملتان کے درمیان ہائی وے کی خراب صورت حال کی جانب نشاندہی کی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عارف علوی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے یوسف تالپور نے کہا کہ کراچی سے حیدرآباد کے درمیان ہائی وے کی تعمیر کے دوران متبادل راستہ مہیا نہ کیے جانے کی وجہ سے لوگوں کو 11 گھنٹے تک ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شیخ آفتاب کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے رابطہ کا اجلاس آئندہ ہفتے کراچی میں منعقد ہوگا جس میں ان مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔

بلاک کیے گئے شناختی کارڈ

آفتاب شیر پاؤ اور غلام احمد بلور نے پارلیمنٹ کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی کہ گذشتہ 13 سال کے دوران 350000 لاکھ پختونوں کے کمپوٹرائز شناختی کارڈز (سی این آئی سیز) بلاک کردیئے گئے ہیں۔

آفتاب شیر پاؤ کا کہنا تھا کہ 'ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان شناختی کارڈز کو کب تک بحال کردیا جائے گا، حکومتی یقین دہانی کے باوجود اس مسئلے کے حل کیلئے کچھ نہیں کیا گیا، کیا یہ پختون پاکستانی نہیں ہیں؟'

اس پر ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ حال ہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کا اجلاس آئندہ ہفتے منعقد ہوگا اور وہ باقاعدہ اعلان کرے گی کہ یہ شناختی کارڈز بحال کردیئے گئے ہیں۔

بعد ازاں پی پی پی کے اراکین نے اپنی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے 3 قریبی ساتھیوں کی گمشدگی کو 10 روز گزر جانے پر ایوان سے احتجاجی واک آؤٹ کیا۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے حکومت پر پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کا الزام لگایا۔

انھوں ںے کہا کہ 'ہم وہی سوال دوبارہ دہرا رہے ہیں کہ یہ لوگ کہاں ہیں اور انھیں کیوں اٹھایا گیا ہے؟ حکومت یہ تفصیلات ایوان میں شیئر کرنے میں بے بس نظر آرہی ہے'۔

یہ رپورٹ 21 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں