شدت پسند مذہبی جذبات سے مشتعل ہوکر ہجوم کی صورت میں تشدد کرنے کے ابتدائی مقبول عام واقعات 17ویں صدی میں سیلم شہر میں پیش آئے۔ سیلم موجودہ امریکی ریاست میسچوسٹ میں واقع ہے۔ یہ علاقہ اُس دور میں برطانوی کالونی تھی۔

شہر کے لوگوں نے ایک درجن سے زائد افراد جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں، پر جادو ٹونے کا الزام عائد کیا۔ اِن کی گرفتاری اور پھر موت کی سزا دینے سے قبل ایک ہجوم نے اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ اِس اشتعال کا آغاز وسیع الخیال عیسائی لکھاری اور پیوریٹن، جوسیف گلینول کی کتاب کی اشاعت سے ہوا۔ 1663 میں شائع ہونے والی ایک کتاب کے مطابق جو اچھی اور بُری روحوں پر ایمان نہیں رکھتا اُس نے گویا عیسائیت پر ایمان سے انکار کیا۔ گلین نے جادوگروں اور بدروحوں کی موجودگی کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اُن دنوں ’جادوگروں کو جلانے’ کا سلسلہ سیلم تک پہنچنے سے قبل پورے یورپ میں بھی چلایا جاچکا تھا۔ قرون وسطیٰ پر ماہر اور مشہور امریکی لکھاری، سینڈرا میزل نے ایک مضمون، ’ہو برنڈ دی وچز؟’ (جادوگروں کو کس نے جلایا؟) میں لکھا کہ جادوگروں کے خلاف پرتشدد کارروائی مختلف عیسائی فرقوں کے درمیان مذہبی اور معاشی تناؤ کا نتیجہ تھی۔

اِسی مضمون میں انہوں نے لکھا کہ ہجوم کی صورت میں جادوگروں کو نذر آتش کرنے والوں کو اکثر جج اور حکومتی افسران بھی سہولت فراہم کرتے تھے۔ لیکن 18ویں صدی کے آتے، مذہبی عقائد کی بنیاد پر جذباتی ہونے والے مشتعل گروہوں کے تشدد کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ سیلم واقعہ اِس لیے بھی اہم ہے کیونکہ تاریخ دان جارج ایل بر نے 1914 میں اپنی کتاب، ’نیریٹو آف دی وچ کرافٹس کیسز‘ میں لکھا تھا کہ، ’سیلم میں جادوگروں کے خلاف کارروائی وہ چٹان تھی جس کے آگے مذہبی اجارہ داری ریزہ ریزہ ہوئی۔’

جارج ایل بر کے مطابق پورے یورپ اور سیلم میں ہونے والے ایسے واقعات نے مذہبیت اور شہنشاہیت کے خلاف شدید ردِ عمل پیدا کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اٹھارہویں صدی میں یورپ میں 'زمانہءِ معقولیت' یا 'زمانہءِ روشن خیالی' کی اِن تحریکوں کی بنیاد پڑی جن کے ذریعے یورپ کو معقولیت، سائنس، برداشت اور جمہوریت کے ذریعے علمی، سماجی اور اقتصادی ترقی حاصل ہوئی۔

بہرحال 18ویں صدی سے یورپ اور امریکا میں مذہبی جذبات کے نام پر تو ہجوم کی صورت میں تشدد کرنے کا سلسلہ ٹھہر گیا تھا، مگر ہجوم کی صورت میں تشدد کا نشانہ بنانے کا سلسلہ نہیں رُکا۔ اِس طرح کے مجمع کی صورت میں تشدد کرنے کے پیچھے صرف نظریاتی مقصد تبدیل ہوگیا تھا۔ اب تشدد مذہبی جذبات نہیں بلکہ نسلی بنیادوں پر کیا جارہا تھا، بلکہ تاریخ نے خود کو الٹا دہرایا، 18ویں صدی کے اواخر میں فرانسیسی انقلاب کے دوران مشتعل ہجوم کی صورت میں چرچوں پر بھی حملے کیے گئے۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے دوران امریکا میں نسلی فسادات عام ہوچکے تھے جس میں سفید فام افراد ہجوم کی صورت میں سیاہ فام افراد پر حملے کرتے تھے۔

جب یورپ میں مذہبی جذبات پر مشتعل ہوکر ہجوم کی صورت میں تشدد کا رواج ختم ہو رہا تھا تب برصغیر— ایسا خطہ جہاں مذہبی جذبات سے بھرپور مشتعل ہجوم کے تشدد کا خطرہ لگا رہتا ہے— میں اِس کا آغاز ہو رہا تھا۔ اِس خطے کی تاریخ کے اہم علمی حوالوں میں 19ویں صدی سے قبل شاید ہی کہیں مذہبی جذبات سے مشتعل ہجوم کے پرتشدد واقعے کا ذکر ملتا ہے۔

2016 میں شائع جرمنی کے ایک تحقیقی جریدے کے ایک مضمون میں، اسپرنگر، تاریخ دان سنتھر وسولنگھم کے مطابق برصغیر میں مذہبی جذبات کی بنیاد پر مشتعل ہجوم کے پرتشدد واقعات 1809 میں بنارس شہر میں ابھرنا شروع ہوئے۔ ہندوؤں کے ہاں مقدس مانا جانے والے ایک ستون گرائے جانے کے تنازع پر ہندو اور مسلمانوں کے مشتعل گروہوں کی صورت میں ایک دوسرے کی جائیدادوں پر حملے کرنا شروع کردیے۔

وسولنگھم کے مطابق، 1806 سے قبل اس خطے میں مذہبی جذبات سے مشتعل ہجوم کے پرتشدد واقعے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ واقعہ ایک ایسے عرصے میں پیش آیا تھا جب ہندوستان میں 500 سالہ مسلمان حکمرانی زوال پذیر تھی اور برٹش کالونی پسند ہندوستان میں اپنا غلبہ قائم کرنے میں مصروف عمل تھے۔

1920 کی دہائی ایک ایسا وقت تھا جب اس خطے میں مذہبی جذبات کے نام پر ہجوم کی صورت میں تشدد کے واقعات بھرپور انداز میں دیکھنے کو ملے۔ واقعات نے اِس قدر شدت اختیار کرلی تھی کہ مسلم رہنما (مستقبل میں بننے والے پاکستان کے بانی) قائدِاعظم محمد علی جناح نے اپنے ہم منصب، مہاتما گاندھی کو خط لکھا جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ مسلمان اور ہندو برادریوں کو مذہبی تحاریک سے دور رکھنا ہوگا کیونکہ ایسی تحاریک سے بے قابو اشتعال انگیز جذبات ابھریں گے جو دونوں کو تباہ کرکے رکھ دیں گے۔

1940 کی دہائی کے آتے، ہندو، سکھ، اور مسلمان کے مشتعل گروہ ایک دوسرے کو اپنے عقائد کا دشمن تصور کرتے ہوئے حملے کر رہے تھے۔ اِن واقعات کو ’فرقہ وارانہ تشدد’ کا نام دیا جانے لگا۔ 1947 میں مسلم اکثریتی ملک پاکستان بننے کے باوجود ہندوستان کو — پہلے کے مقابلے زیادہ — فرقہ وارانہ واقعات کا سامنا ہے۔

پاکستان میں 1947 اور 1981 کے درمیان مذہبی جذبات کی بنیاد پر مشتعل گروہ کی صورت میں تشدد کے دو بڑے واقعات پیش آئے۔ دونوں واقعات احمدیہ برادری کے خلاف تھے (1953 اور 1974)۔ 1953 میں اِن فسادات کو فوج نے کچل دیا تھا جبکہ 1974 میں ہونے والے فسادات نے احمدیہ برادری کو آئینی طور پر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی راہ ہموار کی۔

1980 کی دہائی میں مذہبی جذبات کے نام پر مشتعل گروہوں کے پرتشدد واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا، بیشتر ملک کی سنی اکثریت اور شیعہ اقلیت کے درمیان ’فرقہ وارانہ تناؤ’ کی وجہ سے پیش آئے تھے۔ 1980 کی دہائی میں ملک کے گستاخی کے قوانین کو بھی مضبوط کیا گیا۔ 1990 سے، مبینہ توہین کرنے والوں کے خلاف مشتعل گروہ کی صورت میں تشدد کرنے کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا۔

دلچسپ طور پر، ہندوستان میں ایسے کسی قانون کا تصور سب سے پہلے برٹش کالونی پسندوں نے 1860 میں اُس وقت متعارف کروایا تھا، جب ہندو اور مسلمانوں کی ایک دوسرے کے خلاف مناظرانہ تحریروں میں شدت بڑھنے لگی تھی۔ 1927 میں ہندو مسلم فسادات کے بڑھ جانے پر اس قانون کو مزید مستحکم کیا گیا۔

پاکستان نے 1947 میں اِس قانون کو اختیار کیا مگر اُسے 1956 اور 1962 کے آئین یا 1973 کے آئین کے ابتدائی نسخے کو زیادہ حیثیت نہیں دی گئی۔ 1990 تک، توہین کرنے کے صرف 14 افراد کا ملزم ٹھہرایا گیا۔ 1980 کی دہائی میں اِس قانون میں ضیاء کی متعارف کردہ اضافی شقوں کے بعد توہین کی الزام دہی اور مبینہ توہین کرنے والوں پر مشتعل ہجوم کی صورت میں حملوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا۔

مختلف نظریات نے مذہبی جذبات کی بنیاد پر مشتعل ہجوم کی صورت میں تشدد کرنے کی تشریح بیان کی ہے۔ مقبول ماہر نفسیات، سگمند فریڈ اور ویلیم ڈگل ایسے مشتعل گروہ عوام میں پائے جانے والے عقیدے کے بارے میں سادہ جذبات کو توڑ مروڑ کر بیان کرنے والے ’ہجوم کے رہنماؤں’ کے ماتحت ’پرائیمورڈیل (پہلے سے موجود) گروہ’ ہوتے ہیں۔ فریڈ کے نزدیک، ہجوم کے رہنماؤں کو غیر جانبدار بناکر مشتعل ہجوم کی ذہنیت کو بدلا جاسکتا ہے۔ ایسا شہریوں کے درمیان حصولِ انفرادیت کو فروغ دینے سے ممکن ہوسکتا ہے۔

پروفیسر فلپ جی زمبارڈو مانتے ہیں کہ پُرتشدد ہجوم اپنے اندر شامل ہونے والے فرد کو ’اہم سماجی رویے’ سے آزاد کر دیتا ہے کیونکہ پچھتاوہ، شرم اور اپنے رویوں کے احساس جیسے انسان کے ذاتی ضبط مشعتل ہجوم میں مل کر ختم ہوجاتے ہیں۔

امریکی ماہر نفسیات، ایف ہنری آلپورٹ کے مطابق مشتعل ہجوم ہم ذہن افراد پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں اِس طرح عام حالات کے مقابلے اپنے نظریات کو نہایت شدت سے اظہار کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

کسی دوسرے کے اخلاقی یا عقیدے کے خیال سے جڑے اشتعال انگیز جذبات جنہیں ایک عقلی بنیادوں اور ضابطوں کے ماحول میں مسترد کردیا جاتا اور اُن کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، وہ جذبات اِن مشتعل ہجوم میں زندہ ہوجاتے ہیں۔

یہ مضمون 23 اپریل 2017 کو ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں