اسلام آباد: ٹیلی کام سیکٹر سے منسلک کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کی بحالی اور نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے حکومت کو آئندہ مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں ٹیلی کام سیکٹر میں ودہولڈنگ ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کرنی ہوگی۔

ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت آئندہ بجٹ کو حتمی شکل دے رہی ہے، ٹیلی کام سیکٹر اپنے صارفین کو سکون فراہم کرنے کے لیے سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی لانا چاہ رہی ہے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے دورِحکومت میں آنے والے پہلے مالی بجٹ 14-2013 میں ٹیلی کام سیکٹر کے لیے وِد ہولڈنگ ٹیکس کو 10 فیصد سے بڑھا کر15 فیصد کر دیا گیا تھا تاہم اس کے بعد آنے والے برسوں میں اس ٹیکس کو 14 فیصد کر دیا گیا۔

ٹیلی کام سیکٹر پر عائد جانے والا ود ہولڈنگ ٹیکس دیگر پاکستانی کاروباری سیکٹر پر لگائے جانے والے ودہولڈنگ ٹیکس سے کئی گنا زیادہ ہے، ٹیلی کام سیکٹر 14 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ دیگر سیکٹرز 1 سے 5 فیصد تک ودہولڈنگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹیلی کام سیکٹر:’7 ارب ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے 14 کروڑ موبائل فون صارفین سے سال 16-2015 میں ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں 48 ارب روپے وصول کیے تھے۔

جن میں سے ٹیکس دہندگان کی جانب سے 4 ارب روپے کا دعویٰ سامنے آیا جبکہ 44 ارب روپے کا کوئی دعوے دار موجود نہیں۔

صارفین کو ان ٹیکسوں کی مَد میں ہر 100 روپے کے پری پیڈ کارڈ پر 14 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس اور 19.5 فیصد سیلز ٹیکس یعنی مجموعی طور پر 33.5 روپے کی کٹوتی کے بعد صرف 66.5 روپے کا ایئر ٹائم (موبائل بیلنس) ملتا ہے، تقریباً 9 کروڑ 80 لاکھ موبائل صارفین ہر 100 روپے کے موبائل ریچارج پر یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

ٹیلی نار پاکستان کے چیف کارپوریٹ افیئر ایںڈ اسٹریٹجی آفیسر محمد اسلم حیات نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایف بی آر کو سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس میں کٹوتی کے لیے تفصیلی سفارشات جمع کرائیں ہیں تاکہ عوام کو سکون فراہم کیا جائے خاص طور پر الیکشن کے سال میں، ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو ود ہولڈنگ ٹیکس کو 2013 کی سطح پر کم کردینا چاہیئے۔

اس موقع پر یوفون پاکستان کے چیف آفیسر کارپوریٹ اینڈ ریگولیٹر افیئرز نوید خالد بٹ بھی موجود تھے۔

موبائل کمپنیاں ودہولڈنگ ٹیکس کو واپس حاصل کرنے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتیں کیونکہ زیادہ تر موبائل فون صارفین کی آمدنی ٹیکس ادا کرنے کی حد سے نیچے ہے اور یہ ٹیکس ایکسائز ڈیوٹی کی طرح چل رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 5 جی سروسز جلد متعارف کرانا ممکن؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیلز ٹیکس کے ساتھ ساتھ ودہولڈنگ ٹیکس بھی ٹیلی کام سیکٹر میں دیگر سیکٹر سے زیادہ ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) /جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح کو معقول بنانے اور دوسرے کاروباری سیکٹر کے قریب لانے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

یاد رہے کہ ٹیلی کام سیکٹر میں جی ایس ٹی سندھ کے لیے 19 فیصد اور باقی تمام علاقوں کے لیے 19.5 فیصد ہے جبکہ ملک کے دیگر سیکٹرز کے لیے یہی سیلز ٹیکس 13 سے 16 فیصد ہے، اسی طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی ٹیلی کام سیکٹر میں 18.5 فیصد جبکہ دیگر سیکٹرز میں 16 فیصد ہے۔

اس طرح ایشیائی ممالک کے درمیان ٹیلی کام سیکٹر میں پاکستان کا ازبکستان کے بعد دوسرا نمبر ہے، جبکہ سب سے کم سیلز ٹیکس میانمار کا 5 فیصد ہے، بھارت میں یہ سیلز ٹیکس 14 فیصد اور ایران میں 8 فیصد ہے۔

ٹیلی کام صنعت میں اگر جی ایس ٹی اور ایف ای ڈی کو 17 فیصد تک کر دیا جائے تو 18 لاکھ مزید موبائل صارفین اس بزنس کا حصہ بن جائیں گے اور 2021 تک جی ڈی پی میں 1 ارب 20 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ 4200 نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوجائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی کی ٹیلی کام پالیسی 2015 پر نظرثانی کی سفارش

اسی طرح موبائل سم کی فروخت پر سیلز ٹیکس اور سالانہ لائسنس فیس کو ختم کرکے مزید 12 لاکھ نئے صارفین کا اضافہ ہوگا جبکہ جی ڈی پی میں بھی 8 کروڑ ڈالرز کے اضافے کے ساتھ 4500 نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔

اس سفارش میں کہا گیا کہ ڈیٹا سروسز پر لاگو ہونے والے ایف ای ڈی اور جی ایس ٹی کو ختم کر دیا جائے اور ساتھ ہی تمام صوبوں میں یکساں ٹیکس کا نظام نافذ کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ درآمد شدہ موبائل فون پر لاگو ہونے والے ٹیکس کو بھی کم کرنے کی سفارش پیش کی گئی، درآمد شدہ موبائل پر اس کی قیمت کا 37 فیصد ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ تمام صوبوں میں موبائل فون کے استعمال پر الگ الگ جی ایس ٹی لگایا جاتا ہے۔

اس ابھرتی ہوئی موبائل فون کی صنعت نے 16-2015 میں قومی خزانے میں 158 ارب روپے ٹیکس کی مد میں جمع کروائے ہیں۔

مزید پڑھیں: موبی لنک نے وارد ٹیلی کام کو خرید لیا

فوری اور وسیع کنیکٹیوٹی نے ملک کے چھوٹے بڑے تمام کاروباری حضرات کو اپنے کاروبار کو مزید وسیع کرنے میں مدد فراہم کی ہے تاہم مسلم لیگ (ن) کی حکومت اسے دوسرے تناظر میں دیکھ رہی ہے۔

حکومت اسے اقتصادی ترقی میں بحالی کے لیے ایک مفید آلے کے طور پر سمجھنے کے بجائے موبائل فون صارفین سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا ذریعہ سمجھ رہی ہے۔

صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، لہٰذا ایسا کوئی قانون موجود نہیں، جس میں پاٹا اور فاٹا کے موبائل صارفین سے انکم ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے 2004 میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ٹیلی کام سیکٹر کو صنعت کا درجہ دیا جائے گا لیکن اب تک حکومت اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکی ہے۔

یہ خبر 5 مئی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں