اسلام آباد: وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے نمائندگان اور اہم سیاسی جماعتوں نے فاٹا اصلاحات کے نفاذ میں مزید تاخیر ہونے پر اسلام آباد میں دھرنے کی دھمکی دے دی۔

قبائلی علاقے کے نمائندگان اور سیاسی جماعتوں نے مجوزہ فاٹا اصلاحات کے نفاذ میں تاخیر پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے 20 مئی تک اس معاملے میں ضروری قانون سازی کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی کا خصوصی سیشن منعقد نہیں کیا تو اسلام آباد کی جانب مارچ کیا جائے گا۔

یہ انتباہ فاٹا کے پارلیمنٹیرینز کی جانب سے منعقد کی جانے والی کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں دیا گیا۔

قومی اسمبلی کے رکن شاہ جی گل آفریدی نے اس اعلامیے کو پڑھتے ہوئے کہا کہ ’اگر اصلاحات مزید تاخیر کا شکار ہوئے تو فاٹا کے لوگوں کی آواز ایوانوں تک پہنچانے کے لیے اسلام آباد میں مارچ کا اعلان کیا جائے گا‘۔

ایم پی سی میں شرکت کرنےو الے شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بجٹ اجلاس سے قبل فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے ضروری انتظامی، مالی اور قانونی اقدامات کرنے کے لیے ایک نکاتی ایجنڈے پر قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس منعقد کیا جائے۔

مزید پڑھیں: ’2018 سے قبل فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام‘

اس اعلامیے کے مطابق فاٹا کے عوام قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔

ایم پی سی میں شرکاء کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس میں وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کردہ فاٹا اصلاحاتی ایکٹ پیش کرے۔

اس کے علاوہ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2018 کے عام انتخاب سے قبل فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں تاکہ 2018 کے عام انتخابات میں فاٹا کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہوسکے۔

ایم پی سی میں موجود شرکاء میں فاٹا کے قومی اسمبلی کے اراکین، خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین، سینیٹرز، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل لطیف آفریدی، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ ق، قومی وطن پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے نمائندگان شامل تھے اس کے علاوہ وزیر اعظم کے مشیر برائے قانون بریسٹر ظفر اللہ خان نے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی نمائندگی کی۔

یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے رواں برس 2 مارچ کو فاٹا کو خیبر پختنونخوا میں ضم کرنے جبکہ قبائلی علاقے اور دیگر ترقی پذیر علاقوں کے لیے 10سالہ اصلاحاتی پیکج لانے کے لیے مجوزہ اقدامات کو منظور کرلیا تھا۔

اس وقت وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ یہ پیکج حتمی منظوری کے لیے صدر ممنون حسین کو بھیجا جائے گا جس کے بعد ایک آئینی عمل کا آغاز کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کیلئے سفارشات

ایم پی سی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اصلاحات میں تاخیر کا ذمہ دار سول ملٹری پیچیدہ بیوروکریسی کو ٹہرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا اصلاحات میں سب سے بڑی رکاوٹ سول ملٹری بیوروکریسی کی قبائلی علاقوں میں اپنی گرفت کھونے کی ہچکچاہٹ ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے اجمل وزیر نے کہا کہ فاٹا کی عوام کو رواج ایکٹ پر تحفظات ہیں کیونکہ یہ لوگ اس ایکٹ کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہیں۔

اس موقع پر بیرسٹر ظفر اللہ خان کا کہنا تھا کہ فاٹا اصلاحاتی پیکیج حکومتی ایجنڈے میں شامل ہے۔

انہوں نے ایم پی سی میں موجود شرکاء پر زور دیا کہ حکومت کی نیت پر شک نہ کیا جائے۔

رواج ایکٹ

وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے بتایا کہ فاٹا کے رسم و رواج کے مکمل تحفظ اور ملک کے قانون کو علاقے میں متعارف کرانے کے لئے رواج بل 2017 کو فاٹا کی عوام کی خواہشات کے عین مطابق ختمی شکل دے دی گئی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فاٹا میں ایک مکمل عدالتی نظام قائم کیا جائے گا جہاں قبائلی جرگے کو قانونی حیثیت دے دی جائے گی۔

اس کے علاوہ ایف سی آر کی سیاہ دفعات کو خارج کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں اور تمام بنیادی حقوق کو مؤثر طریقے سے فراہم کیا جائے گا۔

یہ خبر 7 مئی 2017 کے دان اخبار مین شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں