امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تہران پر سے پابندیاں اٹھانے کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود امریکا نے حال ہی میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر دوبارہ پابندیاں نہیں لگائے گا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اس کے باوجود کہ امریکا نے ایران پر جوہری پابندیاں دوبارہ نہ لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے تاہم امریکی محکمہ خزانہ نے ایران کے دفاعی حکام اور ایک چینی تاجر کو ایران کے میزائل پروگرام میں مدد فراہم کرنے پر دیگر ذرائع سے سزا دینے کا ارادہ کرلیا ہے۔

خیال رہے کہ ایران پر جوہری پابندیاں دوبارہ نہ لگانے کا فیصلہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب صرف دو روز بعد ایران میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں اور امریکا کے اس اعلان کے باعث صدر حسن روحانی کی حمایت میں اضافہ ممکن ہے، جنھوں نے مذکورہ معاہدے پر دستخط کیے اور وہ دوبارہ الیکشن کرانے کے خواہش مند تھے۔

یاد رہے کہ 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے میں سابق امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر موجود پابندی ہٹا دی جائیں گی جس کے جواب میں ایران ایٹم بم بنانے کا اپنا اراہ ترک کردے گا۔

ان پابندیوں کے اٹھائے جانے کے حوالے سے نظر ثانی رواں ہفتے ہونا تھی، یہ نظر ثانی ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی منصب پر فائز ہونے کے بعد پہلی مرتبہ کی گئی جنھوں ںے اپنی صدارتی مہم میں خبردار کیا تھا کہ وہ اس معاہدے کو ختم کرسکتے ہیں۔

تاہم حال ہی میں مشرق وسطیٰ کیلئے واشنگٹن کے اعلیٰ سفارتی عہدیدار سٹوارٹ جونز نے کانگریس کو جاری بیان میں کہا تھا کہ ایران سے معاہدے کے تحت اٹھائی گئی پابندیوں کے فیصلے پر امریکا تاحال قائم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایران جوہری ہتھیار لے جانے والے میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے'۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ میزائل پروگرام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اپنے محکمہ خزانہ میں موجود پاٹنر کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہماری قومی سلامتی کو ایرانی خطرات لاحق نہیں ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں