پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ان کی سوشل میڈیا ٹیم کے ایک اور رکن کو سائبر کرائم قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات پر حراست میں لے لیا۔

تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل نے ڈان ڈاٹ کام کے ساتھ گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ ایف آئی اے ٹیم نے 20 مئی کو ان کے کارکن اویس خان کو حراست میں لیا۔

اویس خان کی گرفتاری پر چیئرمین عمران خان نے بھی 21 مئی کو ٹوئیٹر پراحتجاج کرتے ہوئے ٹوئیٹ میں حکومت کو خبردار کیا کہ وہ قومی سلامتی کی آڑ میں اپنی پارٹی کے سوشل میڈیا کارکنان کی گرفتاری کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: متنازع سائبر کرائم بل

خیال رہے کہ اویس خان کو حراست میں لیے جانے کا واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا، جب 2 دن قبل ہی تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کے کارکن سالار خان کو ایف آئی اے نے کئی دونوں بعد رہا کیا۔

حراست میں لیے جانے سے قبل اویس خان کو ایف آئی اے ہیڈکوارٹر میں وضاحت کے لیے طلب بھی کیا گیا۔

انہوں نے 19 مئی کو اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ’انہیں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر طلب کیا گیا ہے، مگر وہ نہیں جانتے کہ انہیں کیوں بلایا گیا، انہوں نے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایف آئی اے جا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ سالار خان اور اویس خان پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات کی تحقیقات ہونا ابھی باقی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ارکان کو حراست میں لیا گیا ہو، اس سے قبل 2015 میں قاضی جلیل کو بھی سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف الزمات لگانے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

دوسری جانب ایف آئی اے کی جانب سے حالیہ حراستوں پر کوئی بیان سامنے نہیں آسکا، بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق تحقیقاتی ادارے کی جانب سے حالیہ گرفتاریاں اس کریک ڈاؤن کا حصہ ہیں، جس کے تحت ایف آئی اے نے 200 افراد کی فہرست تیار کی ہے، جن سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: ’سب سے زیادہ لوگ فیس بک پر ہراساں ہوتے ہیں‘

مقامی نیوز چینل سماء ٹی وی نے 200 افراد کی فہرست دیتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے پاک فوج کے خلاف کی جانے والی ٹوئیٹس کی وجہ سے ان افراد سے تفتیش کیے جانے کا امکان ہے۔

تحریک اںصاف کی قیادت نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ ہے وہ اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے سائبر کرائم قوانین کا استعمال کر رہی ہے، مگر میڈیا میں شائع ہونے والی فہرست میں وفاقی حکمران جماعت کے سوشل میڈیا ارکان بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سینیٹر فرحت اللہ بابرنے بھی سوشل میڈیا ارکان کے خلاف غیرقانونی کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ قومی سلامتی کے نام پر کریک ڈاؤن کے احکامات گزشتہ ہفتے وفاقی وزارت داخلہ نے جاری کیے، جو ناقابل قبول ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے مخالفین کو دبانے کے لیے قومی سلامتی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی قیادت میدان میں

تحریک انصاف قیادت نے حراست میں لیے گیے اپنے کارکنان کے حق میں اٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ مشکل حالات میں وہ ان کے ساتھ ہوں گے۔

پارٹی نے ایسے کسی بھی واقعے کی صورت میں کارکنان کو پی ٹی آئی قیادت سے رابطے کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں جعلی سوشل اکاؤنٹس کی شکایت کرنے کا طریقہ

پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری اشتہار میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی بھی کارکن کو سمن جاری ہوتا ہے، یا ان کا نام فہرست میں ہے تو وہ پارٹی کی دی گئی ای میل ایڈریس پر رابطہ کریں۔

ایچ آر سی پی کی تنقید

سائبر قوانین کو سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جب کہ حالیہ حراستوں کے بعد ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی تحریک انصاف کی حمایت کرتے ہوئے ایک دن قبل اپنے بیان میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایچ آر سی پی نے اپنے بیان میں پی ٹی آئی کی تعریف کرتے ہوئے سیاسی انتقام کے لیے سائبر قوانین کے استعمال نہ کرنے میں بہتری کی امید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کارکنان کو ڈرانا اور دھمکانا غیر جمہوری ہے۔

ایچ آر سی پی نے اپنے بیان میں امید ظاہر کی کہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے پر آواز اٹھاتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کریں گی کہ سیاسی کارکنان، بلاگرز، صحافیوں اور دیگر سول سوسائٹی کے نمائندوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

پارلیمنٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایچ آر سی پی نے کہا کہ حالیہ حکومت کی جانب سے ایف آئی اے میں سائبر ونگ کے قیام سے اب تک 900 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Naveed chaudhry May 22, 2017 05:50am
Assalam O Alaikum This part of law should be changed that anybody who is suspected pr is accused of any crime is arrested. Even there are arrest for the purpose of investigation. May we hope any party who is in power will consider changing this. How about apposition parties in Sindh and Khederpakhtoonkhawa. Arrest should be done only orders of courts. Period.