فائل فوٹو .--
فائل فوٹو --.

بہت سے ترقی پسند دانشور اور سیاسی سرگرمیوں میں فعال حصّہ لینے والے افراد برسہا برس سے پاکستانی ثقافت پرعرب ثقافت کے اثر کے بارے میں ہمیں خبردار کرتے آ رہے ہیں-

ان لوگوں کی پیش بینی کے مطابق ہماری روزمرّہ زندگی کے بہت سے پہلو مثلاً وہ زبان جو ہم بولتے اور لکھتے ہیں اور ہمارا عبادت کرنے کا طریقہ 1980 کی دہائی کے بعد سے بتدریج، تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور اسکی وجہ سعودی عرب اور خلیجی امارات کی براہ راست مداخلت ہے-

"عرب ثقافتی اثر" نہ صرف زیادہ لبرل اور مسلسل تغیر پزیر ثقافتی رسم ورواج کو جو اس خطے میں قدیم زمانے سے جاری و ساری ہیں، خاطر میں نہیں لاتا، بلکہ تشدد پسند جہادی ابال کا ایک پرزور اور اہم محرک ثابت ہو رہا ہے-

میں بڑی حد تک اس نظریے سے اتفاق کرتا ہوں- اگرچہ اس طرح کے عمومی مفروضے سماجی حقیقت کو بہت سادہ الفاظ میں بیان کر کے اس کے اصل مفہوم سے توجہ ہٹا دیتے ہیں-

مثلاً یہ بات تاریخی لحاظ سے قطعاً صحیح نہیں ہے کہ کوئی ایسی یکساں "پاکستانی" ثقافت کبھی موجود تھی، جو"عرب ثقافتی اثر" کے دور میں یکساں طور پر تبدیل کر دی گئی ہو- اسی طرح یہ فرض کرلینا بھی سادہ لوحی ہو گی کہ ہمارے معاشرے میں ظاہر ہونے والی عسکریت پسندی کی وجہ، غیر ملکی حکومتوں کی سازشیں ہیں-

ان استثنائی وجوہات کو چھوڑکر بھی، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم "عرب ثقافتی اثر" کے اس مفروضے پر کھلے عام بحث کریں- حکومتوں، میڈیا، تعلیمی اداروں نے ہی نہیں بلکہ مذہبی تنظیموں نے بھی ہمیشہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کو پاکستان کی آزمایش کے ہر دور میں پاکستان کا اٹل اتحادی قرار دیا ہے-

"مسلم امّہ" کے خلاف کبھی کوئی بھی بات، جس میں تنقید کا شائبہ بھی ہو یا جس سے کہ عوام کے ذہن متاثر ہوں، کھلے عام کہنے کی اجازت نہیں دی گئی-

اس صورت حال میں پاکستان اورخلیجی ریاستوں کے مابین تعلقات "ریاست کے نظریاتی تعلق" سے بھی آگے وسعت اختیار کر لیتے ہیں- چنانچہ عرب ثقافتی اثر کے پیچھے جو سچائی مضمر ہے، اسکی توضیح کرنا اس وقت تک ناممکن ہے جبتک کہ ہم سنجیدگی کے ساتھ معاشی اور سماجی تعلقات کی وجہ جاننے کی کوشش نہ کریں جو معاشرتی سطح پر گزشتہ چند دہائیوں میں وقوع پزیر ہوئے ہیں-

یہ ذوالفقارعلی بھٹو کا دور حکومت تھا جب پاکستان اور خلیجی ریاستوں کے درمیان موجودہ تعلقات کی بنیاد رکھی گئی- پاکستانی ریاست کی اس خواہش کے پیچھے کہ عرب حکمران ریاستوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کئے جائیں، جغرافیائی و سیاسی وجوہات، بنیادی اہمیت کی حامل تھیں-

لیکن ایک اہم ناگزیر معاشی ضرورت، بھٹو حکومت کی اس خواہش کے پیچھے کار فرما تھی- سبز انقلاب کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں محنت کش عوام، روزگار کی تلاش میں تھے-

ان کی اکثریت تو پاکستانی شہروں کا رخ کر چکی تھی لیکن ملک میں جو صنعتی ترقی ہو رہی تھی وہ اتنی نہیں تھی کہ وہ تیزی سے بڑھتی ہوئی محنت کی رسد کو جذب کر سکے- اسی دوران خلیجی ریاستوں کو سستی محنت کی ضرورت تھی کیونکہ وہ تیل کی دولت کو اہم سماجی اور معاشی ترقی کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے-

چنانچہ بھٹو حکومت اور ان کی ہم عصر خلیجی ریاستیں، نقل مکانی کا سلسلہ شروع کرنے پر متفق ہو گئیں- جس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرہ اور خود ان ریاستوں کا معاشرہ، جس نے پاکستانی مزدوروں کی تین یا چارنسلوں کو قبول کیا تھا، تبدیل ہونے لگا-

خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے لاکھوں افراد میں سے بیشتر، چند سالوں کے بعد پاکستان واپس آتے ہیں- اسکی وجہ وہ سخت گیر شرائط ہیں جو تارکین وطن مزدوروں پر خلیجی ریاستوں میں عائد کی جاتی ہیں- تاہم، ان نسبتا محدود تبادلوں کے باوجود اس کے اہم سماجی اور معاشی اثرات رونما ہوئے ہیں-

تارکین وطن، اپنی آمدنیوں کا جو حصّہ زرمبادلہ کی شکل میں بھیجتے ہیں، ان کے اثرات کے علاوہ، جب وہ واپس جاتے ہیں توعرب ثقافت کو پاکستانی دیہاتوں اور شہروں میں پہنچانے کا خصوصی رول ادا کرتے ہیں- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ زندگی کا ایک خاص ڈھرّا بنتا جا رہا ہے- اور وہ لوگ جنہوں نے خلیجی ریاستوں میں ٹھیک ٹھاک پیسہ کمایا، وہ واپس ہونے کے بعد، اپنے آبائی علاقوں میں مسجدوں کی تعمیر میں اپنا وقت، محنت اور پیسہ صرف کرتے ہیں-

ان میں سے زیادہ تر مساجد، سلفیوں کی ہیں اور وہ ان مدرسوں سے اپنے رشتے جوڑ لیتے ہیں جو انہیں کے سے نظریات کے حامل ہیں بلکہ وہ بعض اوقات تو خلیجی ریاستوں سے"مولویوں" کو بھی بلاتے ہیں-

عبادت کے طور طریقوں پر(خاص طور پر دوسروں سے بالکل مختلف) واضح طور پر زور دینے کے علاوہ، خلیجی ریاستوں سے واپس آنے والے تارکین وطن، خود بھی اکثر ان پر سختی سے عمل کرتے ہیں-

عرب ریاستوں میں جن لوگوں نے وقت گزارا ہے، انھیں علم ہے کہ ان معاشروں میں ثقافت کی ظاہری شکلوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے- مختصر یہ کہ تیل اور سلفیت نے کٹر مذہبی عقائد اور ظاہری دکھاوے کے ایک آنوکھے امتزاج کو جنم دیا ہے- جن پاکستانیوں نے اس معاشرے میں وقت گزارا ہے، وہ یقینی طور پر ثقافت کے اس عنصر سے متاثر ہوئے ہیں-

خلاصہ یہ ہے کہ، اس بات کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے مزدوروں کے علاوہ، درحقیقت دیگر تمام تارکین وطن کو، ان ممالک میں انتہائی حقیر سمجھا جاتا ہے- تارکین وطن، اکثر خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں- ان کی رہائش کی جگہ، مضر صحت ہوتی ہے بلکہ انہیں مزدوروں کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے-

کچھ دنوں پہلے ہزارہا پاکستانی مزدوروں کو جو سعودی عرب میں جائز ویزہ پر کام کررہے تھے ملک بدر کردیئے جانے کا خطرہ تھا- ایک یکطرفہ طور پرعائد کردہ ٹیکس ادا نہ کرنیکی صورت میں (جو صرف سعودی فرموں میں کام کرنے والے غیر مقامی ملازمین پر لگایا گیا تھا)-

یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان مزدوروں کے پاس نقد رقم نہیں ہوتی بلکہ ان کے مالکان انھیں پیشگی تنخواہ بھی نہیں دیتے کہ وہ حکومت کو بروقت ادائیگی کر سکیں- ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم امّہ کی فراخدلی اب ختم ہو چکی ہے-

ان تمام واضح نا انصافیوں کے باوجود، جس سے بنیادی طور پر طبقاتی اور نسلی امتیاز کی بو آتی ہے، خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے مزدروں کی نسل در نسل نے ان معاشروں کا خاصا اثر قبول کیا ہے- اسکے نتیجے میں وہ خود اپنے معاشرے میں عرب ثقافت کے ایجنٹ بن گئے ہیں-

میں یہ سمجھتا ہوں کہ سعودی اور دیگرخلیجی ریاستوں کی جانب سے عسکریت پسندی کی براہ راست سرپرستی کو ان سماجی اور معاشرتی روابط سے الگ کر کے دیکھنا ضروری ہے جو پاکستانی تارکین وطن کی پیدا کردہ ہیں-

اس قسم کے سماجی رابطے سے "عرب ثقافتی اثر" کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں پرورش پانے والے ان انحطاط پزیر نظریات اور رسم و رواج کا قلع قمع کرنے میں ہمیں کس قسم کی دشواریوں کا سامنا ہے-

ان تمام مظاہر اور ان کی تمام تر پیچیدگیوں کا تجزیہ ہمیں یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ترقی پسندانہ تبدیلیوں کو روبہ عمل لانے کا ایجنڈا، محض آئیڈیالوجی یا جغرافیائی و سیاسی دائرہ تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ طبقاتی اور دیگر سماجی رابطوں کو ازسر نو ڈھالنے کی ضرورت ہے-

ان تبدیلیوں کو لانے کے عمل کو نظرانداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عرب ثقافت کے اثر کا عمل، بلا روک ٹوک جاری رہیگا-


 ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Ashfaq Ahmed Jul 05, 2013 01:54pm
دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے عرب خصوصا سعودی عرب میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کی عثمانی خلافت ختم ہونے کے بعد برطانیہ کی مدد سے قبضہ کیا ان کے مذہبی نظریات کیا تھے ؟یہ لوگ جو آل سعود ہیں عبد الوہاب نجدی کے نظریات کے ماننے والے ہیں جن کی کتاب
انور امجد Jul 07, 2013 12:20am
اس معاملہ میں حکومت کا کوئی نظریاتی کردار نہیں ہونا چاہیے۔اگر کسی مسلک کو بنیاد بنا کر حکومت نے لوگوں کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اس کے نقصانات زیادہ ہوں گے اور پاکستان کے دوسرے اسلامی ملکوں سے تعلقات بھی خراب ہوں گے۔ اگر ایک بالغ شخص کسی مذھبی مسلک یا نظریہ سے متاثر ہوتا ہے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ مذھب ایک ایک ذاتی عمل ہے اور وہ اس کے لئے اللہ کے سامنے خود جوابدہ ہے۔ اس کو حکومتی مشوروں کی ضرورت نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ کسی کو اپنا مسلک یا مذھبی خیالات دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔کیونکہ یہ مذھبی شدّت پسندی ہے۔