لندن: برٹش ایرینا میں خودکش دھماکا کرکے 22 افراد کو قتل کرنے والا حملہ آور مانچسٹر میں مقیم لیبیا سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں پیدا ہوا جو سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں اپنا آبائی وطن چھوڑ کر برطانیہ آئے تھے۔

برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس 22 سالہ حملہ آور سلمان عابدی کے بارے میں یہ جاننے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ اس نے یہ دھماکا اکیلے کیا یا اس کے پیچھے کوئی نیٹ ورک بھی موجود تھا۔

اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق عابدی کا خاندان جنوبی مانچسٹر کے علاقے فیلو فیلڈ میں 10 سال سے مقیم تھا، مسلح پولیس اہلکاروں نے اس کے گھر کے پتے پر چھاپا مارا۔

پولیس کے مطابق برٹش ایرینا دھماکے میں ملوث ہونے کے شبہ میں شہر کے جنوبی حصے سے ایک 23 سالہ نوجوان کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔

فیلو فیلڈ کے رہائشی 53 سالہ پیٹر جونز نے اس علاقے کو 'محفوظ اور پرامن' قرار دیا۔

پیٹر جونز نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ وہ یہ جان کر "حیران و پریشان' ہوئے کہ حملہ آور کا تعلق اس علاقے سے تھا۔

دوسری جانب برطانوی اخبار 'دی گارجین' کی رپورٹ کے مطابق پولیس اور سیکیورٹی ادارے سلمان عابدی کے بارے میں جانتے تھے۔

مانچسٹر میں لیبین کمیونٹی کے ایک رکن نے اخبار کو بتایا کہ 'سلمان ایک خاموش طبیعت رکھنے والا لڑکا تھا اور ہمیشہ ادب سے پیش آتا تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سلمان کا بھائی اسماعیل زیادہ گھل مل جانے والا تھا لیکن سلمان کافی سنجیدہ تھا، وہ ایسا شخص نہیں لگتا تھا جو یہ دھماکا کرسکتا ہو'۔

اخبار کے مطابق سلمان عابدی کے والد بھی اپنی کمیونٹی میں کافی مقبول تھے اور مختلف کام کیا کرتے تھے تاہم ان دنوں وہ تریپولی میں موجود تھے۔

ٹیلی گراف کے مطابق سلمان اپنے چار بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔

بی بی سی کا کہنا تھا کہ مانچسٹر برطانیہ میں مقیم لیبین کمیونٹی کا گھر ہے جہاں 16 ہزار کے قریب لیبیا سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔

گریٹر مانچسٹر پولیس کے چیف کانسٹیبل ایان ہوپکنز کا کہنا تھا 'ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے جذبات اس وقت خاصے متاثر ہیں اور وہ جوابات کی تلاش میں ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'تاہم اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ گریٹر مانچسٹر میں موجود مختلف برادریاں متحد رہیں اور نفرت کو بڑھنے کا موقع نہ دیں'۔


یہ خبر 24 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں