لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں.
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں.

اپنی حکومت کے آخری سال میں مسلم لیگ ن نے ہر قسم کے خدشات کو بالائے طاق رکھنے اور پیداواری اسٹریٹجک اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ویسی ہی نمائشی ہے جیسا ان کا دور حکومت رہا ہے۔

یہی وہ پارٹی جس نے معیشت کو درپیش چند انتہائی اہم مسائل کے حل کرنے کے وعدے کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا تھا، جیسے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور معیشت میں پیداوار کو بڑھانے جیسے کام شامل تھے۔ مگر اس پارٹی کے دور حکومت نے یہ بھی ثابت کر کے دکھایا کہ وہ بھی پچھلی حکومت سے کچبھ مختلف نہیں ہے۔ نمائشی طور پر ہاں۔ معنی خیز طور پر نہیں۔

پی پی پی کی گزشتہ حکومت بیرون ملک پارٹنر کے ساتھ بڑا معاہدہ ختم کرنے کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ جن معاہدوں کو انہوں نے ختم کیا، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ معاہدے غیر معیاری تھے، لیکن اس کی وجہ سپریم کورٹ تھی جو ہر اس غیر ملکی کمپنی سے معاہدے میں رکاوٹ بنی جن کو وہ روک سکتی تھی، جن میں اسٹیل ملز کیس، ریکو دق اور ایل این جی معاہدے، رینٹل پاور معاہدے اور وہ ترک کمپنی شامل ہیں جس کا بیڑہ بجلی پیدا کرنے کے لیے تیار ہی تھا کہ کسی قسم کا انٹرکنیکشن فراہم نہ کرنے پر پورٹ چھوڑ چکا تھا، تب پھر سے اس بیڑے کو واپس آنے کا حکم جاری کیا گیا۔

موجودہ حکومت کو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا۔ وہ معاملات کو دھرنوں تک آسانی اور آرام سے چلا رہے تھے۔ لیکن یہ دھرنے بھی صرف تاخیر کا باعث بنے، مگر پھر بھی ایسی کسی دائمی رکاوٹوں کا باعث نہیں بنے جن رکاوٹوں سے پی پی پی اپنے پورے دور اقتدار میں نبردآزما رہی تھی۔

مسلم لیگ ن کی حکومت کا آغاز بے تحاشا گردشی قرضوں، جنہیں بڑی عقلمندی کے ساتھ 2013 کے مالی سال کے آخر سے قبل ختم کر دیا گیا تھا، کے خاتمے ساتھ ہوا، یوں خسارے پر پڑنے والے اثرات کا سہرہ گزشتہ حکومت کو دیا جا سکتا ہے۔

ایک ہی بار میں ان قرضوں کے خاتمے کی وجہ سے، خسارہ 8 فیصد جی ڈی پی سے بھی تجاوز کر گیا، اس انتہا کے بعد تو شرح صرف ہی کم ہی ہو سکتی ہے۔ آج، یہ فخر کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خسارے کو اس انتہا سے نیچے لا کر 4 فیصد تک پہنچا چکے ہیں، جیسے خسارے کو آدھا کرنا مالیاتی انتظامیہ کی کامیابی ہو۔ ایسا نہیں۔ یہ اکاؤنٹنگ کا کمال ہے۔ اس بات کے بھی قوی امکانات نظر آ رہے ہیں کہ حکومت اپنی مدت ختم ہونے سے قبل ایک اور بھاری گردشی قرضوں کا خاتمہ کرے گی، یوں حالات ایک بار پھر ویسے ہی ہو جائیں گے جیسے گزشتہ حکومت میں تھے۔

مالیاتی ڈھانچے میں تھوڑی بہتری ضرور ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ بیرون ملک زرائع مبادلہ کے ذخائر میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا جو کہ ان کے اقتدار سنبھالنے کے وقت ایک ماہ کے امپورٹ کوریج کے برابر تھے۔ آئی ایم ایف سربراہ، اپنے مختصر دورے کے دوران، ہر خطاب میں یہ کہتی سنائی دیں کہ قیمتی 'موقع سے فائدہ اٹھانے کا لمحہ ہے’ اور اب وقت آگیا ہے کہ معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے درست اصلاحات کی جائیں۔

لیکن یہ صرف لفظوں کا فریب تھا، کیوں کہ موقعے سے فائدہ اٹھانے کا لمحہ صرف ایک لمحے ہی محیط تھا۔ اور لمحے گزرتے گئے، کبھی کبھار تو ان لمحوں کا اندازہ بھی ہوتا۔ ’تعمیری اصلاحات’ کیا تھیں جن کا ہمیشہ راگ الاپا جاتا رہا؟ مثلاً سرکاری کاروباری اداروں،نے اس عرصے میں اپنا کل خسارہ دگنا کر دیا۔ حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے جیسے اہم شعبوں میں اصلاحات اور قیمتوں کے حوالے سے اصلاحات نہ کرپانے کی وجہ سے گردشی قرضے ایک بار پھر سر پر سوار ہو گئے۔

ٹیکس کا جال وسیع نہیں ہوا مگر ٹیکسوں کا بوجھ ان افراد پر زیادہ سے زیادہ پڑنے لگا جو پہلے سے ہی ٹیکس ادا کر رہے تھے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا، مگر وہ بھی زیادہ تر ادھار کی مرہون منت، اور کبھی کبھار غیر شفاف عمل کے تحت کسی 'برادرانہ ملک کی جانب سے 'تحفے’ کی صورت میں جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا'، جی ہاں سعودی عرب۔ ان دنوں چند افراد کا ماننا تھا کہ یہ پیسے بغیر کسی احسان کے تبادلے میں نہیں دے جا رہے، لیکن ریاض میں ہونے والی کانفرنس کے موقعے پر پاکستان کا خوشامدی رویہ دیکھ کر ہمیں ان 1 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کی رقم یاد آ گئی جو مشکل گھڑی میں آسمان سے من و سلویٰ کی مانند نازل ہوئی تھی۔ اب ان پیسوں کو لوٹانے کا وقت آ پہنچا ہے، اور یہ قرضہ صرف پیسوں سے ہٹ کر دیگر صورتوں میں ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

ان سب باتوں کے ساتھ، چین کے ساتھ ہماری شراکت داری ایک کہانی کی صورت میں فروغ پاتی رہی جو سنانے کے ساتھ ساتھ بڑی بھی ہوئی۔ پہلے یہ کہا گیا کہ ہماری شراکت داری سے تجارت کو فروغ ملے گا۔ پھر یہ کہا گیا کہ نتیجہ خیز پروگرام کے تحت توانائی کے شعبے میں ہونے والی سرمایہ کاریوں سے بجلی بحران ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ پھر ہمیں پتہ چلا کہ باقی معیشت کے لیے بھاری سرمایہ کاریوں کی منصوبہ بندی کی گئی، اور بتایا گیا کہ ان سرمایہ کاریوں سے زبردست پیداوار کا آغاز ہوگا اور ’ہماری زراعت کو صنعتی کار' بنیں گی اور یوں یہ سرمایہ کاریاں ہمارے لیے جدید صنعتی معیشتوں کی صف میں کھڑا کرنے کی راہ ہموار کر دیں گی۔

ایسے پوسٹرز آویزاں ہوئے جن میں گوادر بحر ہند کے سر کا تاج دکھائی دیا، دبئی اور سنگاپور کے درمیان ملاپ کی صورت میں دکھائی دیا۔ آج وہی خواب مغالطہ آمیزی کو آشکار کر رہے ہیں، جبکہ ملک میں یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ حکومت کو مکمل طور پر کچھ بھی واضح نہیں ہے کہ ان سرمایہ کاریوں سے کون سی راہ ہموار ہو رہی ہے۔

حقیقت میں، ہم اگلے سال کے ترقیاتی بجٹ میں مختص کردہ رقوم کے پیچھے چھپی اصل کھیل کو دیکھ سکتے ہیں، اور یہ دکھنے میں کوئی نیا کھیل بھی نہیں۔ مثلاً، ’بجلی سب کے لیے’ اور ’صاف پینے کا پانی’ جیسے پروگراموں کے لیے مختص کی جانے والی 25 ارب روپے کی رقم۔ پینے کا صاف پانی پروگرام میں زیادہ تر چند حلقوں میں فلٹریشن پلانٹس قائم کرنا ہی شامل تھا، اس لیے تین ماہ کے لیے کام کرنے والے فلٹرز سے علاقے کی قیادت، لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے پر مہم چلا سکے گی۔ انتخابات ہوجانے کے بعد، ہم دیکھ لیں گے۔

امکان ہے کہ بجٹ کافی حد تک قلیل مدت جاری رہنے والی اور انتخابات تک مصنوعی سُکھ کی حامل اسکیموں اور مںصوبوں سے بھرپور گزشتہ جیسا ہی ہوگا۔ معاشی سروے پر آج رات کی پریزنٹیشن میں مزید ابھرتی ترقی کے خواب شامل ہوں گے، جو پرکشش تصویروں سے آراستہ نہیں ہوگی بلکہ پرکشش اعداد و شمار سے بھرپور ہو گی، جو ہمیں اپنے اندر یہ جھوٹا احساس پیدا کرنے کے لیے بیوقوف بنانے کی کوشش کرے گی کہ سب کچھ ٹھیک ہے، اور حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔

نہ صرف حالات تبدیل نہیں ہو رہے بلکہ حالات اسی نہج پر آ پہنچے ہیں جہاں پہلے تھے، جو کہ ایک موڑ لینے سے نہیں بدل سکتے۔ وہ پارٹی جو ملکی مسائل کے حل کرنے کے دعوی کے ساتھ انتخابات کی دوڑ میں اول آنے کے لیے تیاری کر رہی ہے، جب اقتدار میں آئی تو نازک ترین حالات کا سامنا کرے گی۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں