اپوزیشن جماعتوں نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے پیش کیے گئے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا قرار دے دیا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ’بجٹ میں غریب کے لیے کچھ نہیں ہے، 15 ہزار کی رقم سے تو اب بکری نہیں پلتی اور یہ انسانوں کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اسحٰق ڈار تو آئی ایم ایف میں بھی کاغذات تبدیل کرتے ہوئے پائے گئے اور وہ اعداد و شمار کی اس ہیر پھیر کے برصغیر کے نامور فراڈ ہیں۔‘

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے سیلز ٹیکس کو 9 فیصد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس بجٹ کے بعد عوام مرنے مارنے پر نہ اتر آئیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما رحمان ملک نے حکومت سے بجٹ پر نظرثانی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ صرف غریب کا سوچے، حکومت نے ہر شعبے پر ٹیکس لگا دیا، ہر کام جو غریب کرتا ہے اس پر ٹیکس کیوں لگایا گیا۔‘

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے بجٹ کو متوازن قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے سال کے بجٹ کا جو جائزہ پیش کیا گیا اس میں کافی پیشرفت ہوئی ہے، جبکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے بھی ملکی معیشت کو سراہا ہے۔‘

مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری نے بجٹ کو آئیڈیل بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ (ن) لیگ نے وہ تمام اہداف حاصل کیے جو پچھلی حکومتیں حاصل نہ کرسکیں۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 18-2017 کا 47 کھرب 50 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کردیا۔

بجٹ تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’رواں مالی سال جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5.3 فیصد رہی جو پچھلے 10 سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور پاکستان 2030 تک دنیا کی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہوجائے گا۔‘

تبصرے (0) بند ہیں