سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے باعث ایران نے قطر کو مدد فراہم کرنے کے لیے اپنے تین پورٹ کے استعمال کی پیشکش کردی ہے۔

فانینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق خلیخی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی میں قطر کو الگ تھلگ کیے جانے کے بعد ایران نے مدد فراہم کرنے کی غرض سے اپنے 3 پورٹ استعمال کرنے کی پیشکش کی ہے۔

رپورٹ میں قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کے حوالے سے کہا گیا کہ دوحہ تمام ضروری اشیاء درآمد کرنے کے قابل ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب سمیت 6 ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کامیابی اور ترقی پسندی کے باعث الگ تھلگ کیا گیا، ہمارا پلیٹ فارم امن کے لیے ہے جنگ کے لیے نہیں‘۔

قطر اپنی تمام ضرورت کے اشیاء درآمد کرتا ہے لیکن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جن ممالک نے اس پر پابندی لگائی ہے ان سے صرف 16 فیصد کھانے کی اشیاء درآمد کی جاتی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ تمام اشیاء قابل تبدیل ہیں اور انھیں ایک دن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، قطری اپنا معیار زندگی ہمیشہ برقرار رکھ سکتے ہیں‘۔

قطر میں ترک فوج کی تعینانی کی منظوری

ادھر غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق ترک صدر طیب رجب اردگان نے قطر میں موجود اپنے فوجی اڈے پر فوج کی تعداد بڑھانے کے لیے کی جانے والی قانون سازی کی منظوری دے دی۔

یہ اقدام سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک کی جانب سے قطر کے سفارتی بائیکاٹ کے تناظر میں دوحہ کی حمایت کے طور پر سامنے آیا۔

نئے قانون میں قطر کی فوجی تربیت میں تعاون بھی شامل ہے جس کی بدھ کے روز ترکی کی پارلیمنٹ نے منظوری دی تھی، یہ منظوری ترک صدر کی جانب سے قطر کو الگ تھلگ کرنے کے فیصلے پر عرب ممالک پر کی گئی تنقید کے ایک روز بعد کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: کسی کو ہماری خارجہ پالیسی میں مداخلت کا حق نہیں، قطر

ترک صدر کے دفتر کے مطابق نئے قانون کی منظوری جمعرات کو رات دیر گئے دی گئی تھی اور اسے جمعے کو آفیشل گزٹ میں شامل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ترکی اور قطر کے گذشتہ کئی سالوں سے قطر کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان 2014 میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت قطر میں ترکی فوجی اڈے کا قیام عمل میں آیا تھا۔

ترک حکومت کا کہنا ہے کہ قطر میں ترک فوج کی تعداد اور ان کے تعیناتی کے عرصے کے حوالے سے فیصلہ خود فوج کرے گی۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر کا قطری امیر سے رابطہ، ثالثی کی پیشکش

اس کے علاوہ لیبیا کی مشرقی حکومت کے وزیر خارجہ محمد دیری نے اپنے ایک بیان میں قطر سے تعلقات کے خاتمے کا اعلان کیا، تاہم انھوں نے فوری طور پر اس اقدام کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔

سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے بعد پاکستان نے دوحہ سے تعلقات بحال رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔

اس سے قبل 1991 میں امریکی اتحاد کی عراق کے خلاف جنگ کے دوران بھی ایسی ہی سیاسی کشیدگی پیدا ہوئی تھی اس موقع پر قطر نے 10 ہزار امریکی فوجیوں کو اپنے ملک میں قیام کی اجازت دی اور امریکی بیس بنائے گئے، جس پر متعدد عرب ریاستیں قطر کے خلاف ہوگئی تھیں، اس دوران متعدد عرب ممالک نے اپنی ایئر لائنز کو قطر کے لیے معطل کردیا تھا اور قطر سے ہر قسم کے سفارتی اور سرحدی تعلقات منقطع کردیے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں