پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے جاسوسی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے سے متعلق اعترافی بیان کی نئی ویڈیو جاری کردی گئی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق نئی ویڈیو جاری کرنے کا مقصد دنیا کو پاکستان کے خلاف بھارت کے مذموم مقاصد سے آگاہ کرنا ہے۔

اعترافی بیان کی نئی ویڈیو میں بھارتی جاسوس نے کہا کہ ’میں کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادیو ہوں، میرا ہندوستانی نیوی کا نمبر 41558 زولو ہے، میں بھارتی بحریہ کا کمیشنڈ افسر ہوں جبکہ میرا کوڈ نام حسین مبارک پٹیل ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں پاکستان کے بحری اثاثوں سے متعلق معلومات کے حصول کی غرض سے دو مواقع پر کراچی میں 2005 اور 2006 میں جاچکا ہوں، جس کے نتیجے میں میں نے کراچی کے اطراف کے علاقوں میں پاک بحریہ کی ساحلی علاقوں پر تنصیبات اور اثاثوں اور ان کے علاوہ جو معلومات حاصل کرسکا حاصل کیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ 2014 میں نریندر مودی کی حکومت ہوگی، لہٰذا میری خدمات را کے سپرد کردی گئی، میری بنیادی ذمہ داری مکران کے ساحلی علاقوں، کراچی، بلوچستان، کوئٹہ اور تربت کے علاقوں میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں پر نظر رکھنا، ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور اس سلسلے میں تمام انتظامات احسن طریقے سے نبھانا تھی۔‘

کلبھوشن یادیو نے کہا کہ ’اس سلسلے میں میری ملاقات انیل کمار اور الوک جوشی سے ہوئی، جس میں کراچی اور مکران کوسٹ میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی گئی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں ایران کے شہر چاہ بہار میں رہا اور وہاں کامنڈا ٹریڈنگ کمپنی کے نام سے حسین مبارک پٹیل کے نام سے کاروبار کرتا رہا، یہ ایک خفیہ اور سفارتی آپریشن تھا جس کا مقصد بلوچ مزاحمت کاروں اور دہشت گردوں سے ملاقات کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان ملاقاتوں مقصد ہمیشہ اہداف اور مقاصد کو سامنے رکھ کر مزاحمت کاروں کو دہشت گردانہ سرگرمیاں سر انجام دینے سے متعلق آگاہ کرنا اور ان کی طرف سے کسی بھی مدد کی پوچھ گچھ کرکے را کو مطلع کرنا تھا۔‘

’را‘ کا دہشت گردوں کا مالی معاونت کا منصوبہ

بھارتی جاسوس کا کہنا تھا کہ ’اس بار میرا پاکستان آنے کا مقصد بلوچ عسکریت پسندوں ( بی ایل اے/ بی آر اے) کی قیادت سے مل کر مکران کوسٹ سے ساحلی پٹی تک 30 سے 40 را اہلکاروں کو گھسانا اور ان کا تیار کرنا، جن کی مدد سے مکران کوسٹ کی ساحلی پٹی پر عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ مل کر دہشت گردانہ کارروائیاں کرنا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بنیادی مقصد را اہلکاروں کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی کو یقینی بنانا تھا تاکہ وہ بلوچ عکسریت پسندوں کی کارروائیوں کو فوجی انداز میں انجام پر پہنچا سکیں، بلوچستان کے سمندر علاقے میں کوئی تحریک نہیں تھی، سو اس لیے مقصد تھا کہ بلوچ عسکریت پسندوں کا ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جس کی مدد سے ساحلی علاقوں اور خطے کوئٹہ اور تربت اور جہاں بھی را حکم دے وہاں کارروائیاں کی جاسکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں را کے لیے کام کرنا شروع کیا تو میری ترجیح کراچی اور بلوچستان تھی، سب سے پہلے اس بات پر غور کیا گیا کہ ان علاقوں میں جو بھی عسکریت پسند موجود ہیں، انہیں مالی مدد کے علاوہ ان تک سمندری راستے کے ذریعے اسلحہ، گولہ اور بارود پہنچانے کو یقینی بنایا جائے۔‘

کلبھوشن نے کہا کہ ’میرا تعلق بحریہ سے ہے، اور مجھے یہ کام دیا گیا کہ کسی طریقے سے اپنے لوگوں کو بذریعہ سمندر یہاں پہنچایا جائے، گوادر، جیونی یا مکران کے قریب کسی بھی بیلٹ پر جہاں آسانی سے ہوسکے، اس کا مقصد یہ تھا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری کے ذریعے پاکستان سے لے کر چین تک جتنی بھی راہداری ہے اس کو نقصان پہنچایا جائے، اس راہداری کو تباہ کیا جائے، اس لیے مقصد یہ تھا کہ کراچی اور بلوچستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دی جائے اور وہاں کا امن تباہ کیا جائے۔‘

بھارتی جاسوس نے مزید بتایا کہ مسٹرانیل کمار کے ذریعے ’را‘ بلوچستان اور سندھ میں کارروائیاں کرا رہی ہے، رقوم کی منتقلی کے لیے ہنڈی اور حوالہ کا مکمل سیٹ اپ دہلی اور ممبئی سے دبئی کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔

ایسا ہی ایک بہت بڑی رقوم کی منتقلی کا معاملہ جس میں بلوچ عسکریت پسندوں کو دبئی کے ذریعے 40 ہزار ڈالر بھیجے گئے۔ کلبھوشن کے مطابق اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں پاکستان مخالف کارروائیوں کے لیے پیسہ افغانستان سے جلال آباد، قندھار اور زاہدین سے ہندوستانی سفارت کاروں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے، یہ بہت اہمیت کے حامل سفارت خانے ہیں، جن کو ’را‘ بلوچستان میں پیسے پہنچانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

انہوں نے ایک واقعہ بتایا کہ مثال کے طور پر ایک واقعہ جس میں میں خود بھی موجود تھا، اس میں حال ہی میں 40 ہزار ڈالر بھارت سے دبئی کے راستے پاکستان میں موجود بلوچ عکسریت پسندوں کو بھیجے گئے، جس کا میں نے خود مشاہدہ کیا۔

ہزارہ مسلمانوں کا قتل عام

گرفتار ایجنٹ کے مطابق ’را‘ اور مسٹرانیل کمار ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیاں کرواتے ہیں، خاص طور پر ہزارہ مسلمان (شیعہ مسلمان) جو اپنی رسومات کی ادائگی کے لیے افغانستان، ایران اور پاکستان میں گھومتے ہیں، ان کو نشانہ بنایا گیا، انہیں مارا گیا، اور یہ کافی عرصے سے جاری ہے، بس اب اس میں اضافے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو روکا جاسکے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاہ بلوچستان میں ایف ڈبلیواو کے بھی مختلف اہلکار ہدف تھے، جو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سڑکیں بنوا رہے تھے، اور تعمیراتی کام کررہے تھے۔

کلبھوشن کے مطابق اسی منصوبے کی تیسری بڑی کارروائی دیستی ساختہ بم تھے، جو بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے کوئٹہ، تربت اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں کیے گئے، ان کے لیے بھی ’را‘ نے معاونت کی۔

چوہدری اسلم کا قتل اور مہران بیس حملہ

انہوں نے بتایا کہ انیل کمار سندھ اور بلوچستان میں فرقہ وارانہ کارروائیاں بھی کر وا رہا ہے، اس کے علاہ خطے میں مختلف لوگوں پر حملے بھی شامل ہیں، اور ان سب کا مقصد پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور پاکستانی لوگوں کے دلوں میں دہشت اور خوف و ہراس پیدا کرنا ہے، ایسے ہی ایک واقعے میں ایس ایس پی اسلم چوہدری کو قتل کیا گیا، ان سب کا ذکر انیل کمار نے مجھ سے براہ راست کیا۔

کلبھوشن یادیو نے کہا کہ دہشت گردانہ حملوں کے لیے بھاری فنڈنگ، جو کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور پاکستان مخالف افغان گروپوں کو کی گئی، جس وجہ سے ٹی ٹی پی کی جانب سے مہران بیس پر حملہ ممکن ہوسکا، جس نے پاکستان بحریہ کو بھاری نقصان پہنچایا، اس کے علاوہ دوسرے دہشت گرد حملے، جیسا کہ ریڈار تنصیبات، سوئی میں گیس پائپ لائنوں کو اڑانا اور بسوں کو روک کر شہریوں کا ذیلی قومپرستوں کے ہاتھوں اجتماعی بے رحمانہ قتل عام، اوراس قسم کے تمام دہشت گردانہ منصوبے براہ راست انیل کمار کی سرپرستی میں سر انجام دئیے جاتے تھے۔

سی پیک کو ملیا میٹ کرنے کا منصوبہ

بھارتی جاسوس نے اعتراف کیا کہ مسٹرانیل کماران دہشت گردانہ کارروائیوں کی شدت اور نقصان کو مزید اس حد تک بڑھانا چاہتا تھا تاکہ پاک-چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہمیشہ کے لیے ملیا میٹ ہوجائے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اس کے لیے ایک فوجی طرز کا آپریشن سر انجام دیا جانا تھا، جس میں زاہدان میں موجود پاکستانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا جانا تھا،اس حملے کا مقصد یہ تھا کہ گرنیڈ یا آرپی جی، یا پھر دیسی ساخت بم سے حملہ کیا جائے،اور پاکستانی سفارتخانے کے قونصلیٹ جرنل کو نقصان پہنچایا جائے۔

ان کے مطابق اس کی منصوبہ بندی فوجی طرزپرکی گئی، ’را‘ کے کارندے جو ایران میں موجود تھے اس کا حصہ تھے، اس کےعلاوہ بلوچ عسکریت پسند جنہوں نے یہ حملہ سر انجام دینا تھا، یا اس کو سر انجام دینے میں مدد کرنی تھی وہ بھی شامل تھے، میں اس کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہوں کہ منصوبہ بندی کیسے ہوئی اور کس طرح کی گئی؟

کلبھوشن نے بتایا کہ ’را‘ ایک جدید ویب سائٹ پر کام کررہی ہے،ایک نئی ویب سائٹ جو نیپال سے چل چکی ہے، جس کے ذریعے سائبردنیا میں بلوچستان کی تحریک کو ہوا دی جا رہی ہے، اس ویب سائٹ کی تیاری، اوراس ویب سائٹ کو بنانے کاعمل اورپرانی ویب سائٹ اوراس کوچلانے کا سب کام ’را‘ کھٹمنڈو (نیپال) کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔

کلبھوشن گرفتار کیسے ہوا؟

بھارتی جاسوس نے اپنی گرفتاری سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس مرتبہ جب انہوں نے پاکستان آنا تھا، انہوں نے چاہ بہار سے ایک پرائیوٹ ٹیکسی میں پاک-ایران سرحد پرجوکہ سراوان کے علاقے کے قریب پڑتی ہےتک کا سفر طے کیا، اس سفر میں ’راکیش‘ ان کے ساتھ تھا، وہاں سے انہوں نے بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بارڈر کراس کیا، اور تقریبا ایک گھنٹے کے اندرہی پاکستانی حکام نے انہیں حراست میں لے لیا۔

کلبھوشن کے مطابق وہ ایرانی ویزا لگوا کے آئے تھا، اوروہ پاسپورٹ کے ساتھ سفر کر رہے تھے، کیوں کہ ایران میں چاہ بہاربارڈر تک ایران کے حکام یا وہاں کے لوگ انہیں چیک کرسکتے تھے، اورانہیں مطمئن کرنے کے لیے ان کے پاس مکمل کوائف ہونا ضروری تھے، اسی طرح انہوں نے پاکستان آکرواپس ایران بھی جانا تھا، انہیں یہ تو معلوم نہیں تھا کہ وہ حراست میں لے لئے جائیں گے، اس لیے ایران واپس جانے کے لیے ان کے پاس ایران کا پاسپورٹ کا ہونا لازمی تھا۔

انہوں نے اپنے ٹرائل سے متعلق تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی عدالتی کارروائی جو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت ہوئی، اس میں انہیں وہاں موجود لوگوں (پاکستانی فوجی عہدیدار) کی طرف سے دفاع کا مکمل حق اور کونسل دی گئی۔

ویڈیو کے آخر میں کلبھوشن یادیو نے پاکستانی عوام سے معافی مانگتے ہوئے اعتراف کیا کہ انہوں نے پاکستان میں وقت گزارا ہے، اورانہوں نے جو گناہ اور جرائم پاکستانی قوم اور پاکستان کے لوگوں کے خلاف سر انجام دئیے ہیں، ان سب پر وہ شرمند ہیں، اور وہ پاکستانی قوم سے معافی کے طلبگار ہیں۔

پہلا اعترافی بیان

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے، جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

ویڈیو میں کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

اہنے اعترافی بیان میں کلبھوشن یادیو نے یہ بھی کہا تھا کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کارروائیوں کے پیچھے 'را' کا ہاتھ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں