بحیثیت قوم 14 اگست کو ہم ستر سال کے ہو جائیں گے، تحریکِ پاکستان، لوگوں کی جدو جہد اور قربانیاں اپنی جگہ لیکن تاریخی حقیقت تو یہ ہے کہ ایک انگریز نے میز پر برصغیر کا نقشہ پھیلا کر ایک لکیر کھینچ کر پاکستان اور ہندوستان کو ملنے والے علاقے طے کر دیے تھے۔ آگ اور خون کا ایک سیلاب آیا جسے عبور کر کے لوگ اپنے اپنے نئے وطن کو پہنچے۔

جناح اور گاندھی نے تو نہیں سوچا تھا کہ ایک خالصتاً سیاسی، قانونی اور آئینی مسئلے پر اتنی قتل و غارت ہوگی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا خیال تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات امریکا اور کینیڈا جیسے ہوں گے۔ گاندھی بھی سمجھتے تھے کہ وہ پاکستان آ کر رہا کریں گے۔ فسادات پھوٹ پڑنے کے بعد اپنے بھرے پرے گھروں کو تالے لگا کر ہجرت کرنے والوں نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ انہیں اب کبھی اپنے گھروں کو دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔

پھر آزادی کے فوراً بعد مسئلہ کشمیر پر نوزائیدہ ملکوں میں چھڑنے والی جنگ نے ہماری دفاعی اور خاجہ پالیسیوں کی بنیاد رکھ دی۔ گاندھی کو قتل کر دیا گیا اور قائد اعظم کی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ ہم نے آئین بنانے میں دیر کر دی۔ 1956میں آئین بنا۔ سیاستدانوں، سول اور ملٹری بیوروکریسی میں ٹھن گئی۔

1958 میں ایوب خان کا مارشل لاء نافذ ہوگیا۔ انہوں نے 1962 کا آئین بنایا اور دس سال بعد جب وہ عشرہء ترقی منا رہے تھے تو ان کی حکومت سے الگ ہونے والے ناراض نوجوان وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی بنا کر حکومت مخالف تحریک شروع کر دی۔ ایوب خان کو رخصت ہونا پڑا لیکن انہوں نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کی اور اقتدار یحییٰ خان کو مارشل لاء کی صورت میں سونپ دیا۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک ڈکٹیٹر سے دوسرے ڈکٹیٹر کو منتقل ہونے والے دورِ اقتدار میں ہی پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات 1970 میں منعقد ہوئے، جس کی مثال ہم 2013 تک دوبارہ دہرانے میں ناکام رہے۔ یحییٰ خان نے ایک فرد ایک ووٹ کے اصول پر انتخابات کروائے تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے مکمل اور مغربی پاکستان کے صوبہ پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔

جمہوری اصولوں کے تحت شیخ مجیب الرحمان کو وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی جانی چاہیے تھی، مگر یحییٰ خان نے ایسا نہیں کیا اور بھٹو سے بھی ایسے بیانات منسوب ہوئے کہ ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔

معاملہ طول پکڑتا گیا اور بات فوجی آپریشن تک جا پہنچی تو ہندوستان نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی فوج مشرقی پاکستان بھیج دی۔ جنرل نیازی نے جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ہمارے نوّے ہزار فوجی ہندوستان کے قیدی بن گئے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔

بھٹو بچے کھچے پاکستان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے اور بعد میں شملہ معاہدے کے نتیجے میں وہ ہندوستان میں قید فوجیوں کو پاکستان لانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ ایک عوامی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے تھے مگر آہستہ آہستہ وڈیروں اور جاگیر داروں نے ان کی پارٹی میں اپنی جگہ بنالی۔

دوسری مدت کے لیے ہونے والے انتخابات کے نتائج کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور قومی اتحاد، جسے نو ستارہ تحریک بھی کہا جاتا ہے، کے نتیجے میں ضیاء الحق نے مارشل نافذ کر دیا۔ ضیا الحق نے 'اسلامائزیشن' کا بیڑہ اٹھایا، اور افغانستان میں سوویت فوجیوں کی آمد کے بعد وہاں امریکا کی پراکسی وار لڑی جس نے پاکستان کو افغان مہاجرین، کلاشنکوف اور ہیروئن کے تحائف دیے۔

یوں لگتا ہے کہ انگریز دور کے 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کے اصول کو سب سے بہتر ضیاء الحق نے ہی سمجھا تھا، تبھی ان کے دور میں فرقہ واریت اور نسلی و لسانی سیاست کو فروغ دیا گیا تاکہ لوگ مارشل لاء حکومت سے الجھنے کے بجائے آپس میں ہی دست و گریباں رہیں۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جو فصل آج ہم کاٹ رہے ہیں، اس کے پودے ضیا الحق نے ہی لگائے تھے۔ طیارے کے حادثے میں ضیا الحق کی ہلاکت کے بعد بے نظیر اور نواز شریف کی جمہوری حکومتیں ضیا الحق کی متعارف کردہ آٹھویں ترمیم، جس کے تحت صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا اختیار حاصل تھا، کی بدولت اپنی مدت پوری نہیں کر پائیں۔

ان مختصر جمہوری ادوار کے بعد پرویز مشرف کا نو سالہ مارشل لاء آیا۔ مقامی حکومتیں یا بلدیاتی ادارے جمہوریت کا لازمی حصہ ہوتے ہیں مگر پاکستان میں جمہوری حکومتیں صوبائی اسمبلیوں سے آگے نہیں جانا چاہتیں، جبکہ آمریت جمہوری میک اپ کے لیے بلدیاتی ادارے یا دیگر اقسام کی مقامی حکومتوں کے نظام ضرور متعارف کرواتی ہے۔ دیگر کئی باتوں کے علاوہ مشرف کا دور مقامی حکومتوں، بگٹی کے قتل اور لال مسجد کے آپریشن کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ نواز شریف کے موجودہ دور کے بارے میں ابھی رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔

تو صاحب یہ تو ہمارے رہنماؤں کی باتیں تھیں۔ اب آپ کے اور ہمارے جیسے عام پاکستانیوں کی بات بھی ہو جائے۔ دیہات میں رہنے والے کمی، مزارعے اور چھوٹے کسان، شہروں کی کچی بستیوں میں رہنے والے ڈرائیور، کنڈیکٹر، ٹھیلے والے، پلمبر، ویلڈر، الیکٹریشن، ماسیاں اور مزدور، یہ سب بھی تو ووٹرز ہیں۔ سیاسی جلسوں میں ان ہی کی تو اکثریت ہوتی ہے۔ آپ کسی ٹیکسی ڈرائیور یا کسی پان اور سگریٹ کا کھوکھا لگانے والے سے بات کریں، سیاست اس کا محبوب موضوع ہوگا۔

ہمارا متوسط طبقہ تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہے اور اپنی آمدنی کے لحاظ سے اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے اسکولوں میں داخل کروانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ لیکن متوسط طبقہ بھی سیاسی میدان میں نہیں اترتا کیونکہ ہمارا انتخابی عمل ہی اتنا مہنگا ہے کہ عام شہری انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

ویسے بھی عوام کی نفسیات یہ بن چکی ہے کہ وہ قیادت کے لیے صرف بالائی طبقے کی طرف ہی دیکھتے ہیں، ان لوگوں کی طرف جو زمینوں اور کارخانوں کے مالک ہیں، جن کے بچے مغربی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر آتے ہیں۔ ہم ان سے مرعوب رہتے ہیں اور بلا حیل و حجت انہیں اپنا لیڈر مان لیتے ہیں۔ اور جب ان کی کارکردگی سے مایوس ہوتے ہیں تو فوج کو آوازیں دینے لگتے ہیں۔

ایک کھچڑی سی بنی ہوئی ہے، کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ہر ادارہ اپنی حدود کے اندر رہتا اور حکومت کی اولین ترجیح عوام کی فلاح و بہبود ہوتی؟ عوام بیچارے کیا چاہتے ہیں، یہ تو حبیب جالب بہت پہلے بتا گئے ہیں۔ روٹی ،کپڑا اور دوا، گھر رہنے کو چھوٹا سا۔

مفت تعلیم، مفت علاج معالجہ، سب سے بڑھ کر پینے کا صاف پانی، بہتر پبلک ٹرانسپورٹ نظام۔ ماہرین اقتصادیات کی زبان میں ایک بہتر انفرا اسٹرکچر، جس کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی اور ترقی کے لیے ملک میں امن ہونا ضروری ہے۔

مگر ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں اپنی بھلائی سب سے پہلے، اور عوام کی بھلائی سب سے آخر میں آتی ہے، چنانچہ عوام کا طرزِ زندگی ان ستر ہنگامہ خیز سالوں میں بھی وہیں کا وہیں ہے۔

ہاں، معیارِ زندگی میں ضرور تبدیلی آئی ہے، بین الاقوامی برانڈز اور ریسٹورینٹس یہاں، نئی سے نئی گاڑی یہاں، متوسط طبقے کی پہلے سے زیادہ آمدنی یہاں، مگر ان سب کے باوجود معاشرے، معیشت اور انفرااسٹرکچر کی بنیاد اب بھی اتنی مضبوط نہیں جو ہونی چاہیے۔

اگر ہماری مقتدرہ کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت مل جائے، تو اس طرف بھی تھوڑی توجہ دے دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں