'ڈیانا خود بھی ایک بچے کی طرح تھیں'

اپ ڈیٹ 31 اگست 2018
پرنس ہیری کے مطابق ڈیانا کہا کرتی تھیں 'جتنا جی چاہے شرارت کرو لیکن بس پکڑے نہ جانا'—۔
پرنس ہیری کے مطابق ڈیانا کہا کرتی تھیں 'جتنا جی چاہے شرارت کرو لیکن بس پکڑے نہ جانا'—۔

'میری والدہ ہر روز میرے ساتھ رہتی ہیں'، برطانیہ کے ولی عہد 35 سالہ پرنس ولیم 20 سال قبل پیرس میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہونے والی اپنی والدہ ڈیانا کو کچھ اس انداز میں یاد کرتے ہیں۔

پرنس ولیم کا کہنا ہے 'جن لوگوں کو آپ اس طرح کھو دیں وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے ہیں'۔

'ڈیانا، ہماری والدہ: ان کی زندگی اور لیگسی' نامی ایک گھنٹہ طویل دستاویزی فلم میں لیڈی ڈیانا کے بیٹوں کے ساتھ گفتگو کے ذریعے ان کی والدہ کی زندگی کے پوشیدہ پہلوؤں کو نشر کیا جائے گا۔

پرنس ولیم اور ان کے 32 سالہ بھائی ہیری اپنی والدہ کی پرانی فوٹو البمز کی مدد سے اس دستاویزی فلم کو دلچسپ بنائیں گے۔

لیڈی ڈیانا کی 20ویں برسی کے موقع پر ایشلے گیتھنگ کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ دستاویزی فلم شہزادی ڈیانا کی زندگی کا شائستہ اور مختصر جائزہ ہے جس میں ان کے قریبی دوستوں، ملازمین اور رشتے داروں کی یادداشت میں موجود باتیں شامل ہیں۔

اس فلم میں 1981 میں لیڈی ڈیانا کی پرنس چارلس سے شادی، 1992 میں ان کی علیحدگی اور 1996 میں ہونے والی طلاق کا تذکرہ بھی موجود ہے۔

ڈیانا کی زندگی بالخصوص ان کی موت کو ہولناک سازشی نظریوں یا کبھی ختم نہ ہونے والی جذباتی کہانی کی صورت بیان کرنا نہایت آسان ہے لیکن کسی مقام پر اسے تاریخ کا حصہ بننے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

تاہم ولیم اور ہیری کی زبانی یہ دستاویزی فلم لیڈی ڈیانا کی زندگی کو ایک الگ پہلو سے بیان کرنے کوشش ہے۔

مزید پڑھیں: لیڈی ڈیانا کی موت پر بات نہ کرنے پر شہزادہ ہیری کو 'افسوس‘

ڈیانا اور میڈیا کا تعلق، خاص کر وہ پاپارازی جو مرتے دم تک ان کا پیچھا کرتے رہے، عوام جو ان کے بارے میں کبھی بھی مکمل طور پر نہ جان سکے، شاہی خاندان پر ڈیانا کا اثر، جو اب بھی بڑی حد تک محسوس ہوتا ہے اور 12، 15 سال کے ان کے بیٹے جو پہلے ڈیانا کے ساتھ چلتے تھے مگر ان کی موت کے بعد انہیں اکیلے اتنے بڑے دکھ کا سامنا کرنا پڑا، وہ اپنی والدہ کے بارے میں اب کیا سوچتے ہیں؟ انہیں کیا یاد ہے؟

دستاویزی فلم میں ولیم بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ محل کی دیواروں سے باہر موجود حقیقی دنیا کو اچھی طرح سمجھتی تھیں، 'وہ بہت کم عمر سے ہی ہمیں بھی یہ دنیا دکھانا چاہتی تھیں'۔

ڈیانا بے گھر افراد کے شیلٹر ہاؤس میں اپنے ساتھ دونوں بیٹوں کو بھی لے جاتی رہیں اور ان میں سے ایک شیلٹر ہاؤس ایسا ہے جہاں ولیم اب بھی باقاعدگی سے جاتے ہیں۔

ہیری جو آج تک صرف اپنی والدہ کے انتقال پر روئے ہیں، کہتے ہیں کہ اب بھی ایسا بہت سا غم ہے جسے وہ باہر نکالنا چاہتے ہیں۔

ہیری کی یادداشت میں جذباتی باتیں موجود ہیں، اپنی والدہ کی ہنسی اور ان کا تیز میوسیقی کے ساتھ گاڑی ڈرائیو کرنا۔

ہیری کے مطابق ان کی والدہ خود بھی ہر طرح سے ایک بچہ تھیں اور کہا کرتی تھیں 'جتنا جی چاہے شرارت کرو لیکن بس پکڑے نہ جانا'۔

آخری فون کال کا دکھ

شہزادہ ہیری کی 1987 میں والدہ لیڈی ڈیانا کے ہمراہ لی گئی ایک یادگار تصویر—۔
شہزادہ ہیری کی 1987 میں والدہ لیڈی ڈیانا کے ہمراہ لی گئی ایک یادگار تصویر—۔

ڈیانا کے دونوں بیٹوں کو آج بھی اپنی والدہ سے آخری بار فون پر ہونے والی گفتگو یاد ہے، یہ فون کال لیڈی ڈیانا کی موت سے چند گھنٹوں قبل ہی کی گئی تھی۔

ہیری اور ولیم اپنے والد اور دادی ملکہ الزبتھ کے ساتھ اسکاٹ لینڈ میں چھٹیاں گزار رہے تھے جب انہیں ڈیانا کی کال موصول ہوئی، وہ اپنی والدہ کو کچھ بتانا چاہتے تھے جو مختصر دورانیے میں ممکن نہ ہوسکا۔

ہیری کہتے ہیں کہ 'زندگی بھر مجھے اسے بات کا افسوس رہے گا کہ وہ کتنی مختصر فون کال تھی'۔

یہ فلم ولیم اور ہیری کے لیے ڈیانا کو یہ بتانے کا موقع بھی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا، ڈیانا اگر زندہ ہوتیں تو ان کی عمر 56 سال ہوتی اور وہ شاید اپنے پوتا پوتی کے ساتھ کھیل رہی ہوتیں، دونوں شہزادے اُس وقت کو تصور کرنے میں نہیں ہچکچاتے۔

فلم میں ڈیانا کی بہت سی ایسی تصاویر شامل ہیں جو پہلے منظرعام پر نہ آسکیں، ان میں آسٹریا میں ان کی اپنے بیٹوں کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے کی تصویریں بھی شامل ہیں۔

ایک تصویر ایسی بھی ہے جس میں ڈیانا کو کیمرے کا لینس ہاتھ سے ڈھانپتے دیکھا جاسکتا ہے اور وہ فوٹوگرافر کی منت کررہی ہیں کہ انہیں اور ان کے بیٹوں کو اکیلا چھوڑ دیا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ ولیم اس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے والدہ کو روتے دیکھا تو اس کی وجہ میڈیا سے جڑی تھی۔

ولیم کے مطابق 'ہیری اور میں اس سب سے گزرے ہیں اور ایک سبق جو میں نے سیکھا ہو یہ ہے کہ میڈیا کو حد سے آگے بڑھنے نہ دیا جائے، کیونکہ انہیں باہر دھکیلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے'۔


24 جولائی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کی تیاری میں واشنگٹن پوسٹ سے مدد لی گئی

تبصرے (0) بند ہیں