نیب نے جے آئی ٹی رپورٹ کی 10ویں جِلد طلب کرلی

اپ ڈیٹ 12 اگست 2017
سپریم کورٹ نے رپورٹ کی 10 ویں جلد کو چیئرمین جے آئی ٹی واجد ضیاء کی درخواست پر عوامی نہیں کیا تھا—فائل فوٹو
سپریم کورٹ نے رپورٹ کی 10 ویں جلد کو چیئرمین جے آئی ٹی واجد ضیاء کی درخواست پر عوامی نہیں کیا تھا—فائل فوٹو

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ سے پاناما پیپرز کیس میں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے نااہلی کا سبب بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ کی تین مکمل تصدیق شدہ کاپیاں طلب کرلیں۔

نیب کی جانب سے گذشتہ روز (11 اگست) کو عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا کہ 'براہ کرم جے آئی ٹی رپورٹ کے مکمل سیٹ کے ساتھ احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے لیے جاری ہونے والا ضمیمہ پیش کیا جائے'۔

ذرائع کے مطابق اس سے قبل بھی نیب کی جانب سے کی جانے والی درخواست پر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کی 9 جِلدوں پر مشتمل تصدیق شدہ کاپی فراہم کی تھی تاہم جِلد 10 کو روک لیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ بیورو کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سابق وزیراعظم، ان کے بچوں اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنسز کو حتمی شکل دینے کے لیے جے آئی ٹی رپورٹ کی کم از کم چار تصدیق شدہ اور مکمل کاپیاں درکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے رپورٹ کی 10 ویں جلد، جس میں دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ قانونی معاونت (ایم ایل اے) کی تفصیلات موجود ہیں، کو چیئرمین جے آئی ٹی واجد ضیاء کی درخواست پر عوامی نہیں کیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل جے آئی ٹی عملدرآمد بینچ نے نواز شریف کے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ حارث احمد کو جلد 10 کے دو صفحات دیکھنے کی اجازت دی تھی۔

رپورٹ کے خلاصے کے مطابق اس جلد میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 21 کے تحت جے آئی ٹی چیئرمین کی جانب سے بھیجی گئیں مشترکہ قانونی معاونت کی درخواستیں شامل ہیں۔

یہ درخواستیں برٹش ورجن آئی لینڈز کے اٹارنی جنرل، برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی، سعودی عرب کی وزارت داخلہ، متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف، سوئٹرزلینڈ کی سینٹرل اتھارٹی اور لیگزمبرگ کے پراسیکیوٹر جنرل سے کی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 64(1)(ایف) کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا جبکہ نیب کو راولپنڈی کی احتساب عدالت میں 6 ہفتوں کے اندر اندر 4 ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔

یہ ریفرنسز جے آئی ٹی کی جانب سے اکھٹی کی جانے والی معلومات جبکہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور نیب کے پاس پہلے سے موجود مواد کی بنیاد پر دائر کیے جانے تھے۔

عدالتی حکم کے مطابق نیب کو نواز شریف، ان کے بچوں مریم صفدر، حسن اور حسین نواز جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن کے ایون فیلڈز فلیٹس کے حوالے سے ریفرنسز دائر کرنے تھے۔

نواز شریف اور ان کے بیٹوں کے خلاف ایک مزید ریفرنس عزیزیہ اسٹیل کمپنی، ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اور ایک 16 دیگر کمپنیوں کے حوالے سے دائر ہونا تھا۔

ان کمپنیوں میں فلیگ شپ انویسٹمنٹس، ہارٹ اسٹون پراپرٹیز، قیو ہولڈنگز، کوئنٹ ایٹون پلیس 2، کوئنٹ سیلونی، کوئنٹ، فلیگ شپ سیکیورٹیز، کوئنٹ گلوکیسٹر پلیس، کوئنٹ پیڈنگٹن، فلیگ شپ ڈویلپمنٹس، الانہ سروسز، لنکن ایس اے، شیڈرن، انبیشر، کومبر اینڈ کیپیٹل ایف زیڈ ای (دبئی) شامل ہیں۔

جبکہ چوتھا ریفرنس اسحٰق ڈار کے خلاف اپنی آمدن سے زائد فنڈز اور اثاثے رکھنے پر دائر کیا جانا تھا۔

یاد رہے کہ نیب کے کام کی نگرانی اور رہنمائی جبکہ احتساب عدالت کی کارروائی پر نظر رکھنے کے لیے سپریم کورٹ نے اپنے ایک جج جسٹس اعجاز الحسن کو نامزد کر رکھا ہے۔


یہ خبر 12 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں