اسلام آباد: قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور الزامات کو یکسر مسترد کردیا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران امریکی الزامات پر تفصیلی غور و فکر کیا گیا۔

اجلاس میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر دفاع خرم دستگیر خان کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ایئر چیف ایئر مارشل سہیل امان، نیول چیف ایڈمرل محمد ذکاء اللہ، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور دیگر حکام شریک تھے۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا کہ بطور پڑوسی ملک پاکستان، افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے لیکن پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے سے افغانستان مستحکم نہیں ہوگا۔

اعلامیہ کے مطابق افغان تنازع کے بعد پاکستان میں مہاجرین، منشیات اور اسلحہ آیا اور پاکستان کے خلاف افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں بنیں، جہاں سے مخالف دہشت گرد گروپس پاکستان کے خلاف کارروائیاں اور حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے سے افغانستان مستحکم نہیں ہوگا‘

مزید کہا گیا کہ یہ حقیقت اپنی جگہ واضح ہے کہ افغانستان میں پیچیدہ مسائل اور اندرونی خلفشار نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور عالمی برادری کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکا، افغانستان میں آپریشن کے لیے 2001 سے اب تک پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر رہا ہے، پاکستان کو اربوں ڈالر امداد کے دعوے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے مترادف ہیں، مذکورہ رقم پاکستان کی فضائی حدود اور دیگر سہولیات استعمال کرنے پر دی گئی، جبکہ مالی امداد کے بجائے عالمی برادری ہزاروں پاکستانیوں کی جانوں کی قربانیوں اور 120 ارب ڈالر کے نقصان کو تسلیم کرے۔

قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کیا کہ پاکستانیوں کی جانیں اتنی ہی قیمتی ہیں جتنا کسی دوسرے ملک کے شہریوں کی ہیں، عالمی برادری مل کر افغانستان سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرائے اور بارڈر مینجمنٹ، افغان مہاجرین کی واپسی اور افغان مسئلے کے سیاسی حل میں مدد کرے۔

اعلامیہ کے مطابق پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی، پاکستان کے موثر انسداد دہشت گردی کے آپریشنز نے ثابت کیا ہے کہ اس ناسور کا خاتمہ ممکن ہے، جبکہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اپنے تجربات شئیر کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اور اسی رویے کی اپنے پڑوسیوں سے توقع رکھتا ہے۔

کمیٹی نے بھارت کی جانب سے خطے کو غیر مستحکم کرنے اور بدامنی پھیلانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔

کمیٹی کا کہنا تھا کہ بھارت، پاکستان کو مشرق اور مغرب سے غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے، بھارت پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے اور دہشت گردی کو بطور ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے اور اس کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں، پاکستان ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لیے موثر کمانڈ اور کنٹرول نظام رکھتا ہے، جسے عالمی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔

واضح رہے کہ 22 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا عندیہ دیا اور اسلام آباد پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام دہراتے ہوئے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام

امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اُن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے، ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے‘۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہیے‘۔

دوسری جانب افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دینے کے اپنے سابقہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد ’بلینک چیک‘ نہیں، ’ہم قوم کی دوبارہ تعمیر نہیں کررہے، ہم دہشت گردوں کا صفایا کررہے ہیں'۔

دوسری جانب جنوبی ایشیاء میں اہم اتحادی بھارت سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’امریکا افغانستان میں استحکام کے لیے بھارتی کردار کو سراہتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت، امریکا کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کے لیے مزید کام کرے۔

افغان جنگ اور پاکستان پر اس کے اثرات

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد امریکا نے افغانستان میں کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

امریکا کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا، تاہم عدم اور ناکافی ثبوتوں کی روشنی میں ہی سابق امریکی صدر جارج بش نے اسامہ کے میزبان ملک افغانستان پر یلغار کردی، جس کے بعد دہشت گردی کے جن نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔

امریکا نے اسامہ بن لادن کو اپنا اولین دشمن قرار دیا اور ان کی تلاش میں افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کیں اور بالآخر مئی 2011 میں امریکا نے اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ابیٹ آباد میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

ایک عشرے سے زائد جاری رہنے والی اس جنگ میں شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں افغان شہری بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد بے گھر ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ’امریکا نے 9/11 کے بعد ایٹمی حملے پر غور کیا تھا‘

نائن الیون نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی 'بش ڈاکٹرائن' کو جنم دیا اور افغانستان ،شمالی کوریا، عراق اور ایران برائی کا محور قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا.

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چند ہزار امریکیوں کے بدلے امریکا نے لاکھوں افراد کو ہلاک کردیا، لاکھوں زخمی اور معذور جبکہ ہزاروں گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ گوانتانامو اور ابوغریب جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے وجود میں آئے۔

امریکا کی جنگجوانہ پالیسی سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا اور یہاں شدت پسندی بڑھی، بالخصوص افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے نہ صرف قبائلی علاقوں میں ٹھکانے بنائے بلکہ شہری علاقوں میں بھی کھل کر موت کا کھیل کھیلا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں