’شمالی کوریا نے جنگ کا آغاز کردیا‘

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2017
سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس شمالی کوریا کی جانب سے تجربے کے ایک دن بعد منعقد ہوا—فوٹو: اے پی
سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس شمالی کوریا کی جانب سے تجربے کے ایک دن بعد منعقد ہوا—فوٹو: اے پی

شمالی کوریا کی جانب سے ہائڈروجن بم اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے تجربے پر رد عمل میں امریکا نے کہا ہے کہ کِم جانگ اِن نے جنگ کا آغاز کردیا۔

شمالی کوریا نے 3 ستمبر کو ہائڈرو جن بم جب کہ 29 اگست کو بین البراعظم بیلسٹک میزائل کے کامیاب تجربے کا دعویٰ کیا تھا۔

شمالی کوریا کی جانب سے میزائل تجربے اور ہائڈروجن بم کی تیاری کے بعد اقوام متحدہ (یو این) کی سلامتی کونسل ( یو این ایس سی) کا ہنگامی اجلاس ہوا۔

اجلاس میں امریکی سفیر نِکی ہیلی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پیانگ یانگ نے ہائڈروجن بم کا تجربہ زیر زمین کیا،اور اس کے اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کِم جانگ اِن نے جنگ کا آغاز کردیا۔

نِکی ہیلی نے آگ بگولہ ہوتے ہوئے کہا کہ ’بس بہت ہوچکا‘، امریکا جنگ نہیں چاہتا تھا، مگر اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’اب وقت آچکا ہے کہ سلامتی کونسل شمالی کوریا کے خلاف سخت سفارتی اقدامات اٹھائے‘۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے اپنی خبر میں بتایا کہ شمالی کوریا کی جانب سے ہائڈروجن بم کا تجربہ کرنے کے خلاف سلامتی کونسل کے اجلاس میں دیگر ممالک کے سفیروں نے بھی پیانگ یانگ کے خلاف فوری طور پر مزید سخت پابندیاں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا کا 'چھٹا جوہری تجربہ'

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس رواں ماہ 29 اگست کو چھٹے بیلسٹک میزائل تجربے اور گزشتہ روز 3 ستمبر کو ہائڈروجن بم کے دعوے کے بعد ممبر ممالک کی درخواست پر منعقد کیا گیا، جس میں عالمی برادری نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کی مذمت کرتے ہوئے اس پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔

پیانگ یانگ کی جانب سے ہائڈروجن بم بنانے کے دعوے کے ایک دن بعد ہونے والے کو منعقد کے لیے امریکا، برطانیہ، جاپان، فرانس اور جنوبی کوریا نے درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں: شمالی کوریا ایک اور میزائل تجربے کی تیاری میں

یک دوسرے کے بعد خطاب کرتے ہوئے برطانیہ، فرانس، اٹلی اور دیگر ممالک کے سفیروں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو ختم کرکے اس کے خلاف سخت اقدام اٹھائے جائیں۔

اٹلی کے سفیر سیبسٹیانو کارڈی کا کہنا تھا کہ ’پیانگ یانگ نے واضح طور پر عالمی امن اور تحفظ کے لیے خطرات پیدا کردیے‘، انہوں نے توجہ دلائی کہ شمالی کوریا وہ واحد ملک ہے جو 21 ویں صدی میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کر رہا ہے۔

جاپانی سفیر کورو بیشو نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم وقت ضائع کیے بغیر شمالی کوریا کے خلاف سخت اقدامات چاہتے ہیں، تاکہ وہ خود پر دباؤ محسوس کرکے کارروائیوں کو محدود کرے‘۔

فرانس کے سفیر فرانکوئس دلاتری نے کہا کہ انہوں نے اقوام متحدہ سے شمالی کوریا کے خلاف نئی پابندیوں کے اطلاق کے لیے کہا ہے،جب کہ وہ یورپی یونین (ای یو) میں بھی پیانگ یانگ کے خلاف پابندیوں کے لیے آواز اٹھائیں گے۔

البتہ روسی سفیر نے شمالی کوریا کے جوہری تجربے پر کوئی سخت رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

روسی سفیر ویسلی نیبونزیا نے کہا کہ شمالی کوریا پر دباؤ ڈالنے یا اس پر پابندیاں عائد کرنے سے اس مسئلے کو حل کرنا ناممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا کا ہائیڈروجن بم تجربے کا دعویٰ

واضح رہے کہ چین اور روس کا شمالی کوریا پر پابندیاں عائد کرنے سے متعلق تقریبا یکساں مؤقف ہے، ماسکو اور بیجنگ اس معاملے کو دو طرفہ حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

روس اور چین کا خیال ہے کہ اگر شمالی کوریا کو اپنا جوہری پروگرام ختم کرنا پڑے تو امریکا اور جنوبی کوریا کو بھی علاقے میں فوجی مشقوں اور کارروائیوں کو ختم کرنا پڑے گا۔

شمالی کوریا علاقے میں جنوبی کوریا و امریکی فوجی مشقوں کو اپنے خلاف جنگ کی تیاری کے طور پر دیکھتا ہے، جب کہ واشنگٹن کا مؤقف ہےکہ فوجی مشقیں پر امن ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں